بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیوز کے ذریعہ سے دین کی تبلیغ کا حکم


سوال

ویڈیوز بھی تصویروں کا ہی ایک مجموعہ ہے کہ بلب میں موجود روشنی جو نظر آرہی ہے وہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ایک سیکنڈ میں 100مرتبہ سے زیادہ onاورoff ہوتی ہے جو کہ ہماری حس معلوم نہیں کرسکتی ہے اس لیے ہمیں روشنی برقرار نظر آتی ہے جو کہ الیکٹرانک آلات کے ذریعے پایا جاتا ہے،بالکل اسی طرح ویڈیوز بھی ایک سیکنڈ میں تصویر کی مجموعہ ہوتی ہے، جو کہ کیمرا ایک سیکنڈ میں 100/40 کے قریب فیپچر کرتاہے جو ہماری حس معلوم نہیں کرسکتی اور سافٹ ویئر کے ذریعے تصویروں کو چلتا ہوا بنادیا جاتا ہے اس لیے ہمیں جاری نظر آتی ہے اصل میں تصویروں کا ہی مجموعہ ہوتا ہے جو کہ سافٹ ویئر اور ویڈیو Editer کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے، ابھی سوال یہ ہے کہ تصویر حرام ہے مسلم اور علماء حق حج کے لیے جاتے ہیں تو پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور تصاویریں نکالتے ہیں وغیرہ یعنی حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، جس طرح زندگی بھر شناختی کارڈ کا استعمال اور بیرونی ممالک تبلیغ، روزگار اور حج کے  لیے تصویریں اور پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں تو  کیا  دین کی تبلیغ کے لیے ویڈیوزشرع عذر کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے اوامر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی طرف بلانا اور ان کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار کرنا امت کے مسلمانوں پر (فرض کفایہ کے طور پر) ضروری ہے، تاہم یہ ضرورت اور لزوم استطاعت اور  قدرت کے ساتھ مقید ہےاور   ہر مسلمان بلکہ ہر عالم شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق  حسب استطاعت تبلیغ ، اصلاح  اور شبہات کا دفع کرنے کامکلف ہے ، خود کو معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرکے دین کی دعوت یا شکوک وشبہات دفع کرنے  کا مکلف نہیں، اس بارے  میں حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔“

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن) 

صورتِ  مسئولہ میں شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ میں تصویر لگانے کاجو قانون بنایا گیا ہے  جائز نہیں ہے ،کیو ں کہ آحادیث  کی رو سے تصویر کشی مطلقًا حرام ہے ،  لہذا اس قانون کو ختم کر کے کوئی جائز شناخت متعین کرنی چاہیے ،اور جب تک یہ قانون موجود ہو بوقت ضرورت وبربناءِ  مجبوری شناختی کا رڈ یا پاسپورٹ   میں تصویر لگا سکتے ہیں  اور اس کا گناہ انتظامیہ پر ہو گا ، عوام پر نہیں کیوں کہ عوام مجبور ہیں۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فجعل ‌تعالى ‌الأمر ‌بالمعروف والنهي عن المنكر فرقا بين المؤمنين والمنافقين، فدل على أن أخص أوصاف المؤمن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ورأسها الدعاء إلى الإسلام والقتال عليه. ثم إن الأمر بالمعروف لا يليق بكل أحد، وإنما يقوم به السلطان إذ كانت إقامة الحدود إليه، والتعزيز إلى رأيه، والحبس والإطلاق له، والنفي والتغريب، فينصب في كل بلدة رجلا صالحا قويا عالما أمينا ويأمره بذلك، ويمضي الحدود على وجهها من غير زيادة... قال: ‌والأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في تأكيد الأمر بالمعروف ‌والنهي عن المنكر كثيرة جدا ولكنها مقيدة بالاستطاعة ۔۔۔قلت: ‌القول ‌الأول ‌أصح، فإنه يدل على أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض على الكفاية."

(سورہ آل عمران، ج:4، ص:48۔165، ط: دار الکتب المصری)

احسن الفتاوی میں ہے:

"اصلاح وتبلیغ کی نیت سے معصیت کاارتکاب ہر کز جائز نہیں، جب ارشاد وتبلیغ سے مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے تو اس مقصد کی تحصیل کے لیے اس کی معصیت کا کیا مطلب؟۔"

(متفرقات الحظر والاباحہ، ج8190/8،سعید)

جوا ہر الفتاوی میں ہے :

"عام لوگو ں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ  اس قانون کو ختم کر نے کی سعی کریں ،اور جب تک یہ قانون موجود ہو بوقت ضرورت وبربناء مجبوری شناختی کا رڈ یا پاسپورٹ   میں تصویر لگوا سکتے ہیں  اور اس کا گناہ انتظامیہ کو  ہو گا "۔

(شناختی کارڈ میں تصویر لگاوانے کاقانون ،405/2،اسلامی کتب خانہ )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں