بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویلنٹائن ڈے (14 فروری) میں اپنی بیوی کو پھول / تحفہ دینے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے،  بحیثیت مسلمان ہمارا ایسا کوئی شرعی تہوار نہیں ہے، لیکن کیا ہم اپنی بیویوں سے محبت کا اظہار کسی جگہ کھانے پر جا کر کچھ پھول تحفے میں دے سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام میں  مسلمانوں کے تہوار کے دن موجود ہیں، اور دینِ اسلام نے بحیثیتِ مسلمان اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو  ان تہواروں کے منانے اور اپنی خوشی کے اظہار کرنے کی اجازت بھی دی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم غیروں سے متاثر ہوکر اور اپنی جہالت کی وجہ سے اس سے بے خبر ہیں، تاہم اسلام میں ان خوشی کے مواقع اور تہواروں کو "عید" کے نام سے یاد کیا جاتاہے، اور اسلامی تہذیب میں جو تہواریں ہیں وہ دو ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسر ا عیدالا ضحی، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "بے شک ہر قوم کی عید ہے اور یہ (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہماری عیدیں ہیں"  اس حدیث مبارک میں جہاں مسلمانوں کے لیے "عید" (تہوار) کی تعیین کر دی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے تہواروں میں نمایاں فرق موجود ہے،  اگر یہ فرق ملحوظ نہ ہوتا تو الگ طور پر عیدین کے ایام مقرر کرنے کے بجائے سابقہ اقوام و ملل کی عیدوں میں سے کسی ایک دن کو ہی مسلمانوں کے لیے بطورِ تہوار منتخب کر لیاجاتا۔ اور  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ سال کے دو دنوں میں کھیل کود کرتے اور خوشی مناتے تھے۔ آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کے بارے میں دریافت فرمایا کہ: یہ کیا ہیں؟ اہلِ مدینہ نے عرض کیا کہ: ان ایام میں ہم زمانۂ جاہلیت سے کھیل کود کرتے چلے آرہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں، عیدالبقر کا دن اور عیدالفطر کا دن ۔ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اسلامی تہواروں کی تعداد اورایام متعین ہو گئے۔ غرض یہ کہ اسلام میں مسلمانوں کے لیے تہوار منانے کے دن موجود ہیں، اس لیے  بحیثیتِ مسلمان ہمیں محبت کے اظہار یا کسی اور عنوان سے کوئی نیا تہوار ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح غیروں کے ایجاد کردہ تہواروں کو اسلامی طریقے سے منانے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جہاں تک ویلنٹائن والے دن اپنی بیوی کے ساتھ باہر ہوٹل وغیرہ جاکر پھول وغیرہ تحفے میں دینا اور اس کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرناہے، تو واضح رہے کہ میاں بیوی کا بھی آپس میں اس ویلنٹائن وا لے دن ایک دوسرے کو محبت وغیرہ کے اظہار کے لیے پھول  دینا یا تحفہ تحائف کا تبادلہ کرنا وغیرہ چوں کہ اس دن کے منانے کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے، اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ دن غیر اقوام کے تہوار کا دن ہے، اس لیے غیرقوموں کی مشابہت کی وجہ سے اس طرح کرنا بھی جائز نہیں ہے، جس پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر اسی کے ساتھ کیا جائے گا، لہٰذا اس سےبھی  بچنا بہت  ضروری ہے۔  رہا بیوی سے محبت کا اظہار کرنا یا اسے کوئی تحفہ یا پھول و غیرہ دینا، تو اس کے لیے کسی خاص دن یا وقت  کی تعیین کے بغیر محبت کا اظہار کرنا اور اسے تحفہ وغیرہ دینا درست ہے اور اس طرح کرنا پسندیدہ بھی ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة «أن أبا بكر دخل عليها، والنبي صلى الله عليه وسلم عندها، يوم فطر أو أضحى، وعندها قينتان بما تقاذفت الأنصار يوم بعاث، فقال أبو بكر: مزمار الشيطان مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعهما يا أبا بكر، إن لكل قوم عيدا، وإن عيدنا هذا اليوم.»."

(‌‌باب مقدم النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه المدينة، ج: 5، ص: 67، رقم: 3931، ط: دار طوق النجاة - بيروت)

سنن أبو داود میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:، ‌من ‌تشبه ‌بقوم فهو منهم."

(‌‌أول كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة، ج: 6، ص: 144، رقم: 4031، ط: دار الرسالة العالمية)

بذل المجہود میں ہے:

"عن أنس قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما فقال: «ما هذان اليومان؟ » قالوا: كنا نلعب فيهما فى الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما: يوم الأضحى، ويوم الفطر».

(فقال: ما هذان اليومان؟ قالوا: كنا نلعب فيهما) أي في اليومين (في الجاهلية) أي في زمن الجاهلية قبل أيام الإسلام (فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قد) حرف التحقيق (أبدلكم بهما خيرا (2) منهما) أي جعل لكم بدلا عنهما خيرا منهما في الدنيا والأخرى. وخيرا ليست أفعل تفضيل إذ لا خيرية في يوميهما (يوم الأضحى ويوم الفطر) وقدم الأضحى فإنه العيد الأكبر، قاله الطيبي، قال المظهر: فيه دليل على أن تعظيم النيروز والمهرجان وغيرهما من أعياد الكفار منهي عنه. قال أبو حفص الكبير الحنفي: من أهدى في النيروز بيضة إلى مشرك تعظيما لليوم فقد كفر بالله تعالى، وأحبط أعماله، وقال القاضي أبو المحاسن الحسن بن منصور الحنفي: من اشترى فيه شيئا لم يكن يشتريه في غيره، أو أهدى فيه هدية إلى غيره، فإن أراد بذلك تعظيم اليوم كما يعظمه الكفرة فقد كفر، وإن أراد بالشراء التنعم والتنزه وبالإهداء التحاب جريا على العادة لم يكن كفرا، لكنه مكروه كراهة التشبه بالكفرة حينئذ فيحترز عنه."

(كتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، ج: 5، ص: 201۔203، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

عمدۃ القاری میں ہے:

"نهى الله تعالى المؤمنين أن يشتبهوا بالكافرين في مقالهم وفعالهم."

(كتاب تفسير القرآن، باب: قوله تعالى: {فلا تجعلوا لله أندادا وأنتم تعلمون}، ج: 18، ص: 86، ط: إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں