بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا مؤکل کے قربانی کے جانور کو اپنی طرف منسوب کرنا


سوال

ایک غیر صاحبِ نصاب شخص کو کوئی  صاحبِ نصاب شخص رقم دے کہ میری طرف سے قربانی تم کردو ، پھر یہ غیر صاحبِ نصاب شخص جانور لے آئے ،اور اس کی طرف سے قربانی کرے، لیکن ساتھ ساتھ یہ لوگوں کو اپنی عزت کی خاطر بولتا ہے،کہ  یہ میرا جانور ہے ،اور میں قربانی کررہا ہوں، اور دل میں نیت ہے کہ یہ فلاں صاحب نصاب شخص کی طرف سے ہے، تو کیا اس طرح لوگوں کو بتانا صحیح ہے ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا دوسرے کے جانور کو اپنا بتانا یہ عمل ہر گز درست نہیں ،بلکہ دھوکہ دہی اور جھوٹ ہے،ایسے شخص کو اپنے اس عمل سے توبہ کرنا چاہیے ، البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کو قربان کرنا میرے ذمہ میں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال ما هذا يا صاحب الطعام ؟ قال أصابته السماء يا رسول الله قال أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس ؟ من غش فليس مني."

(باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم من غشنا فليس منا ۔ج۱، ص۹۹، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر  راہ میں ایک اناج کے ڈھیر کے پاس سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس (اناج کے ڈھیر ) کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” اے اناج کے مالک! یہ کیا ہے؟ “ وہ بولا: پانی پڑ گیا تھا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  پھر تو نے اس (بھیگے اناج )کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے جو شخص فریب کرے دھوکہ دے وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔"

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حت يكتب عند الله صديقا وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال العبد يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا."

(باب  ما جاء في الصدق والكذب ،ج:4، ص347، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ سچ بولو اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف راہ نمائی  (راغب)کرتا ہے، اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ برائی کی طرف دھکیلتا ہے اور برائی جہنم کو لے جاتی ہے اور آدمی برابرجھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔"

سنن الترمذی میں ہے:

"عن ابن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عيله وسلم يقول إن الغادر ينصب له لواء يوم القيامة." 

( أبواب السیر، باب ما جاء أن لکل غادر لواءً یوم القیامة ج:4، ص144، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا  ہے کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا(جس سے  تمام لوگوں کے سامنے اس کی بری شناخت ہوگی)۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں