بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویکسین لگوانے کے بعد کیا کریں؟


سوال

 آفس میں کرونا ویکسین لگانا لازمی کردیا ہے،  اس کے بغیر سیلری اور  الاؤنس نہیں ملیں گے،  جب  کہ ویکسین کے بہت سے مضر اثرات کا بھی سننے میں آیا ہے،  کیا ویکسین لگوالیں؟  اور  اگر لگوالیں تو کوئی دعا وغیرہ بتادیں،  جس سے ویکسین کے مضر اثرات سے حفاظت رہیں!

جواب

1۔ بصورتِ  مسئولہ  موجودہ  حالات میں کرونا وائرس کا جو  انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے لیے بطور ویکسین  لگایا جارہا  ہے ، چوں کہ  یہ ویکسین  احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر  لگائی  جارہی ہے ، یقینی بیماری  کا علاج مقصود نہیں ؛اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز  ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے،  اور اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی  ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو  تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

البتہ اگر  کرونا کے کسی مریض کو بطورِ  دوا  یہ انجیکشن لگایا جائے تو اس صورت میں اگر اس  میں حرام اجزاء کی آمیزش کا یقین یا غالب گمان  نہیں تو استعمال جائز ہے،  لیکن اگر حرام کی آمیزش کا قرائن سے معلوم ہوجائے تو یقینی بیماری کی صورت  میں بھی  اس کا استعمال  اس وقت تک جائز نہیں جب تک  مسلمان  ماہر دین دار طبیب  یہ نہ  کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے،  بلکہ یہی حرام اجزاء ملی دوا ضروری ہے  اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً  بطورِ  دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اجزاء ملی انجیکشن  استعمال کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل في الأشياء الإباحة، و أن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة و ربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، و ليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل."

(کتاب الاشربۃ، ج:6، ص:459، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى.

 (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل".

(کتاب الطہارۃ، مطلب في التداوي بالمحرم، ج:1، ص:210، ط:ایج ایم سعید)

2۔  کرونا اور دیگر وبائی امراض سے حفاظت کے لیے دعائیں:

صبح وشام (فجر اور مغرب کے بعد ) تین تین  مرتبہ مندرجہ  ذیل دعاؤں کا اہتمام کریں :

( 1) "أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ".

(2) "بِسْمِ اللهِ الَّذِيْ لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْئٌ فِيْ الأَرْضِ وَ لاَ فِيْ السَّمَاءِ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ".

اور درج ذیل درود شریف کا کثرت سے ورد کیا جائے:

" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ كُلِّ دَاءٍ وَ دَوَاءٍ وَ بِعَدَدِ كُلِّ عِلَّةٍ وَشِفَاءٍ وَبَارِكْ وَسَلِّم."

(شفاء القلوب ، ص:223 ، ط: مکتبہ نبویہ ،۔ ذریعۃ الوصول الی جناب الرسول ﷺ،درود نمبر 144،۔روح البیان۔7/234، ط: دارالکتب العلمیہ)

ان اعمال کے اہتمام سے ان شاء اللہ تعالیٰ کرونا وائرس ویکسین اور تمام وبائی ، روحانی اور جسمانی امراض سے حفاظت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں