بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی بنا پر صرف عاشورا کا روزہ رکھنا


سوال

 کیا حکم ہے اگر کوئی شخص 9 یا 11 محرم کا روزہ نہ رکھ سکے نوکری یا کسی عذر کی بنا پر، آیا صرف  10محرم کا رکھنا درست ہے؟

جواب

محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، بلاعذر صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود کو  عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ "حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَور روزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے)!!  آپ ﷺ نے فرمایا:  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔

"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" .

(صحيح مسلم، (2/ 797)

حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ "تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو۔"

"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»".

(سنن الترمذي، (3/ 120)

لہذا  ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت (مستحب) ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں  تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔

 تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا  ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے،   اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:

(۱)  نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔

(۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔

(۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177):

 "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں