بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی بناء پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں نمازِ جنازہ کے لیے جگہ نہیں ہے، ایک جگہ ہے وہ ہے پیٹرول پمپ کا میدان ہے،  لیکن وہ تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ظاہر بات ہے وہاں پر لے جانے میں کچھ مشقت تو ہے ہی، کیوں کہ وہاں لے جانے کے لیے کوئی گاڑی نہیں ہے اور دوسری جگہ علاقے کی جامع مسجد ہے، جامع مسجد میں محراب سے آگے میت کی جگہ بنی ہوئی ہے۔

اب معلوم یہ کرنا تھا ان مذکورہ حالات کے پیش نظر جنازہ  کس جگہ پڑھنا بہتر رہے گا؟ اور یہ بات بھی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ کے حوالے سے آپ کے مسائل اور ان کا حل اور مسائل بہشتی زیور اور احکام میت وغیرہ کتب میں منع کیا گیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بغیر عذر کے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، چاہےجنازہ مسجد میں ہو، یا مسجد سے باہر ہو، چاہے امام اور بعض نمازی مسجد  سے باہر ہوں ، یا امام اور تمام نمازی مسجد میں ہوں، البتہ اگر کوئی عذر ہو، جیسے بارش وغیرہ ہو، یانماز جنازہ کے لیے دوسری کوئی جگہ موجود نہ ہو، تو ایسی صورت میں مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عذر کی بناء پر مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، باقی علاقے والوں کو مسجد سے باہر قریب کہیں جنازہ گاہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

رد المحتار میں ہے:

"إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية والاعتكاف كما في المبسوط، كذا في الحلية وغيرها. والظاهر أن المراد اعتكاف الولي ونحوه ممن له حق التقدم، ولغيره الصلاة معه تبعا له وإلا لزم أن لا يصليها غيره وهو بعيد لأن إثم الإدخال والصلاة ارتفع بالعذر تأمل، وانظر هل يقال: إن من العذر ما جرت به العادة في بلادنا من الصلاة عليها في المسجد لتعذر غيره أو تعسره بسبب اندراس المواضع التي كان يصلي عليها فيها، فمن حضرها في المسجد إن لم يصل عليها مع الناس لا يمكنه الصلاة عليها في غيره، ولزم أن لا يصلي في عمره على جنازة، نعم قد توضع في بعض المواضع خارج المسجد في الشارع فيصلى عليها، ويلزم منه فسادها من كثير من المصلين لعموم النجاسة وعدم خلعهم نعالهم المتنجسة مع أنا قدمنا كراهتها في الشارع وإذا ضاق الأمر اتسع، فينبغي الإفتاء بالقول بكراهة التنزيه الذي هو خلاف الأولى كما اختاره المحقق ابن الهمام، وإذا كان ما ذكرناه عذرا فلا كراهة أصلا، والله - تعالى – أعلم."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:224، 225، ط:سعيد)

فتاوى عالمگیری میں ہے:

"والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة ‌سواء ‌كان ‌الميت ‌والقوم ‌في ‌المسجد ‌أو ‌كان ‌الميت ‌خارج ‌المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة. ولا تكره بعذر المطر ونحوه، هكذا في الكافي تكره في الشارع وأراضي الناس، كذا في المضمرات أما المسجد الذي بني لأجل صلاة الجنازة فلا تكره فيه، كذا في التبيين ولا ينبغي أن يرجع من جنازة حتى يصلي عليه وبعدما صلى لا يرجع إلا بإذن أهل الجنازة قبل الدفن وبعد الدفن يسعه الرجوع بغير إذنهم، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:165، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں