بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سےدوسرے گھر میں عدت گزارنا


سوال

عمر رسیدہ عورت اپنے گھر میں عدت گزار رہی ہے، لیکن اس گھر میں بیت الخلا ایسا ہے کہ وہ عورت صحیح طریقہ سے اٹھ بیٹھ نہیں پاتی ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ مختصر دوری پر ایک دوسرا گھر ہے جس میں تمام قسم کی سہولتیں میسر ہیں تو کیا اس گھر میں وہ عدت گزار سکتی ہے؟

جواب

عورت کے لیے طلاق یا شوہر کے انتقال کی صورت میں شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے، عام حالات میں دورانِ عدت وہاں سے کسی اور جگہ رہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک ممکن ہو  مذکورہ عورت عدت کے دوران مرحوم شوہر  کے گھر  سے منتقل نہ ہوں، اسی گھر میں اگر بیت الخلا کی مرمت یا کوئی متبادل انتظام کیاجانا ممکن ہوتو وہ انتظام کرکے مذکورہ عورت کے لیے اسی گھر میں عدت گزارنے کا بندوبست کرلینا چاہیے، جو اتنا مشکل نہیں ہے۔

البتہ اگر کسی شدید عذر، یا بیماری کی بنا پر اس گھر میں بیت الخلا کا استعمال ممکن نہ ہو، یا عدت کے دنوں میں اس گھر کے استعمال کی صورت میں بیماری کے بڑھ جانے یا شدید تکلیف میں مبتلا ہوجانے کا غالب گمان ہو  تو پھر اس عذر کی بنا پر قریبی دوسرے گھر میں منتقل ہونے کی اجازت ہوگی۔

تاہم منتقلی کے بعد بھی   عورت پر دوسرے گھر میں عدت کی وہی پابندیاں  لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں