بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سے زکاۃ میں کتنی تاخیر کی گنجائش ہے؟


سوال

پیسے نہ ہونے کے باعث زکوۃ کی ادایئگی میں کتنی تاخیر کی گنجائش ہے؟

جواب

زکاۃ ادا کرنے میں بلاعذر تاخیر کرنا مکروہ ہے،  تاہم اگر رقم نہ ہونے کے عذر کی وجہ سے زکاۃ ادا کرنے میں تاخیر کی تو گناہ نہیں ملے گا، تاہم اگلا سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے زکاۃ ادا کردینی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 271):

(وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر.

و في الرد:

 (قوله: فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل.

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں