بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سے تکبیرات انتقال اور افعال نماز میں مقارنت نہ کرنے والے قدیم امام کو امامت سے معزول کرنا


سوال

میں نے 1998میں الحمدللہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے سندفراغ حاصل کی تھی، اورسادسہ والے سال سے ایک مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض سے منسلک ہوں اور ایک مدرسے میں دورہ حدیث کی کتب کی تدریس سے بھی وابستہ ہوں  درج ذیل مسئلہ میں راہ نمائی مطلوب ہے ۔ 

میں گزشتہ پانچ سال سے گلے کی تکلیف میں مبتلا ہوں، آپریشن بھی کرواچکاہوں، الحمدللہ پہلے سے بہتری ہے ،تاہم ابھی بھی گلے میں ورم کی وجہ سے تکبیرات انتقال کی ادائیگی میں آوازاور حرکت(فعل) میں مقارنت نہیں کرپارہا ہوں، تکبیر کہنے میں معمولی تاخیرہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بعض نمازی حضرات کواشکال پیش آرہا ہے، مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ تکبیرات انتقال اور حرکات(افعال) میں بناء برعذرعدمِ مقارنت کی وجہ سے نماز ہو جاتی ہے؟ یامقارنت ہی ضروری ہے ۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ میں الحمدللہ 29 سال سے اس مسجد کی خدمت سے منسلک ہوں،کیااس عذر کی وجہ سے میں امامت سے استعفی دےدوں؟ اس بارے میں حکم شرعی سے آگاہ فرماکراحسان عظیم سے نوازنے کی التجاء ہے۔جزاکم اللہ خیراً

جواب

تکبیرات انتقال اور افعال کی ادائیگی میں مقارنت کا اہتمام مسنون ہے،اور بلاعذر عدمِ مقارنت کو فقہاء کرام نے مکروہ کہا ہے، لیکن اس کی وجہ سے نماز میں  فساد  یا سہولازم نہیں آتا، بلکہ نماز ہوجاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں سائل کا بحیثیت پیش امام و خطیب نمازیں پڑھانا درست ہے، اوراس منصب سے استعفیٰ دینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم علاج کے دوران اگر کسی کو عارضی امام رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، تاکہ لوگوں کے قال و قیل سے بچ جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله مع الانحطاط) أفاد أن السنة كون ‌ابتداء ‌التكبير عند الخرور وانتهائه عند استواء الظهر، وقيل إنه يكبر قائما، والأول هو الصحيح كما في المضمرات وتمامه في القهستاني".

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:493، ط:سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:

"ترك السنة لا يوجب فساداً و لا سهواً، بل اساءةً لو عامداً غير مستخف".

(فصل في بيان سننها، ص:256، ط:قديمي)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’رکوع اور سجدے کی تکبیرات کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ رکوع میں جاتے وقت تکبیر بھی ساتھ ساتھ شروع کردے اور ساتھ ساتھ ختم کر ے۔ اسی طرح سجدہ میں جاتے وقت بھی تکبیر ساتھ ساتھ شروع کرے اور ساتھ ہی ختم کرے ۔ رکوع و سجدہ میں پہنچنے کے بعد تکبیر کہنا سنت کے خلاف ہے اور اس میں دو کراہتیں   بھی لازم آتی ہیں ۔ ایک کراہت تکبیر کے وقت کو ضائع کرنے   کی اور دوسری کراہت بے وقت تکبیر کہنے کی ۔ کیونکہ یہ وقت رکوع و سجدے کی تسبیح پڑھنے کا ہے تکبیر کہنے کا نہیں‘‘۔

(کتاب الصلوۃ، ج:5، ص:24، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں