بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی صورت میں رمضان سے پہلے فدیہ ادا کیا جانے کا حکم


سوال

1۔بیماری اور بڑھاپے  کے باعث روزہ نہ رکھنے کی صورت میں کیا رمضان سے پہلے فدیہ ادا کیا جا سکتا ہے؟

2۔کیا یہ فدیہ ان  دینی مدارس  کو دیا جا سکتا ہے جو صدقات وصول کرتے ہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ فدیہ روزے کا بدل ہے اور روزہ واجب ہونے کا سبب  رمضان المبارک کے مہینے کی آمد ہے،لہٰذا ماہِ رمضان سے پہلے فدیہ  ادا کرنا درست نہیں ہے،البتہ ماہِ رمضان  شروع ہونےکےبعد شرائط کے ساتھ پورے رمضان المبارک کےروزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتاہے۔

2۔فدیہ کی رقم مستحق زکوٰۃ افراد کو دینا ضروری ہے،ایسے دینی مدارس جہاں زکوٰۃ کا مصرف موجود ہوفدیہ دینادہرے اجرو ثواب کا باعث ہے،اس لیےکہ اس میں دین اسلام کی نشر و اِشاعت میں تعاون بھی ہے،لہٰذا مدارس کے مستحق طلباء  کو فدیہ دینا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے ،اورزیادہ اجرو ثواب کا باعث ہے۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق."

(كتاب الصوم:الباب الخامس في الاعذار اللتي تبيح الافطار :ج:1،ص:207،ط:رشیدیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر و بلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله هذا إذا كان الصوم أصلا بنفسه وخوطب بأدائه."

           (كتاب الصوم ،فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم ج:2 ،ص:421،ط:سعيد) 

وفیہ أيضا:

'ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعاً، إلا إذا وكله الفقراء ، (قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئاً ملكوه وصار خالطاً مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع.'

(كتاب الزكاة ،ج:2 ،ص:269 ،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم                                                     


فتوی نمبر : 144308101062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں