بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عذرکی بنا پر تلفظ صحیح ادانہ کرنےکی وجہ سے نمازکاحکم/ جبڑے میں کھچاؤ کی وجہ سےترکِ جماعت کا حکم/ شفا کے لیے وظیفہ


سوال

 1:مجھے ایک عارضہ لاحق ہے جس کا میں اپنے بساط کے مطابق علاج کر رہا ہوں۔ عارضہ یہ ہے کہ میرے جبڑے میں کھچاؤ ہے، گردن اور گلے کے پٹھے میرے جبڑے کو نیچے کھنچتے ہیں جس کے باعث الفاظ اور آواز کی ادائیگی میں نہیں کر پاتا، کبھی انتہائی تکلیف اور زبردستی کر کے منہ اور زبان ہلا کر بات کر لیتا ہوں۔ منہ میرا انتہائی کھل جاتا ہے۔ کیا مجھے نماز کے لیے الفاظ بتکلف ادا کرنے ہیں یا جو میری بساط اور سہولت سے جو ادا کروں وہ کافی ہیں؟

2: نیز کیا میرا مسجد جانا شرعاً ضروری ہے یا میں گھر پر نماز ادا کروں؟ کیوں کہ میرا جبڑا کھلا رہتا ہے جس کے باعث مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور لوگ بھی گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔

3:مفتی صاحب مجھے شفا  یابی کے لیے وظیفہ اگر ممکن ہو تو بتادیجیے گا۔ 

جواب

1:واضح رہے کہ  نمازمیں تلاوت نماز کے فرائض میں داخل ہے اور تلاوت  کے دوران الفاظ کی درست ادائیگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا نماز میں تلاوت کے دوران   ہر طرح کی غلطی سے  بچنے کا  اہتمام کرناچاہیے، لیکن اگر عذر کی بنا پر  بغیر مشقت کےحروف  کی تلفظ صحیح ادانہ کر سکے تو اس  صورت میں   نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔

  مذکورہ تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو واقعتاًایساعذر ہے کہ جس کی وجہ سے الفاظ کی درست ادائیگی میں کافی دشواری ہوتو اس سےسائل نماز تو فاسد نہیں ہوگی، البتہ سائل کو چاہیے کہ سہولت کےساتھ  اپنی قدرت اور بساط کے مطابق  جتناہوسکے الفاظ کی صحیح ادائیگی کااہتمام کرے۔

2:واضح رہے کہ فرض نمازوں میں جماعت سنت موٴکدہ یعنی واجب کے قریب ہے، بعض علماء کےنزدیک واجب ہے،بلا عذر شرعی جماعت کے ترک پر اصرارگناہ کبیرہ ہے، بلاعذر جماعت ترک کرنے والےپرسخت وعیدیں آئی ہیں،اور جن اعذار کی بنا  پر  مسجد کی جماعت کو ترک کرنے کی اجازت ہےان میں سے ایک عذر   ایسی بیماری کاہوناہے جس کی وجہ سے چل کر یا کسی  کے سہارے  سے مسجد تک  نہ جاسکے،صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ سائل کاعذر ایسا نہیں ہےکہ مسجد تک جانا مشکل ہو،لہٰذا سائل کو چاہیے کہ رومال، ماسک وغیرہ منہ میں لگاکر  ایسے وقت میں مسجد جانے کا ہتمام کرے کہ عین  جماعت کے وقت مسجد پہنچ کر جماعت میں شامل ہو سکے، اور جماعت ختم ہوتے ہی واپس گھر لوٹ آئے،اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خلقِ خدا سے  شرم نہیں کرنی چاہیے۔

3:حضرت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نےاعمالِ قرآنی میں  لکھا ہے کہ:

"وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ (التوبة:14) وَشِفَـآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِ وَهُدًى وَّرَحْـمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ (یونس:57) يَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِـهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَـآءٌ لِّلنَّاسِ(النحل69) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَـآءٌ وَّرَحْـمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا (اسرائیل:82)  وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ (الشعراء:80)  قُلْ هُوَ لِلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا هُدًى وَّشِفَـآءٌ '"(حٰمٓ سجدہ:44)"

خاصیت: ان آیاتِ شفا  کوجس مرض میں چاہے طشتری پر لکھ کر مریض کوپلاوے یاتعویذ لکھ کر گلے میں ڈال دے،ان شاءاللہ صحت ہوگیااگر چہ کیسا ہی سخت مرض ہو۔

(اعمالِ قرآنی:ص:29،ط:دارالاشاعت)

1:فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) ذكر حرف مكان حرف٭ إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان،وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري."

(الفصل الخامس في زلة القاري،ج:1، ص:79،ط:رشيدية)

2:علامہ طبرانی کی معجم الکبیر میں ہے:

"عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجَفَاءُ كُلُّ الْجَفَاءِ، وَالْكُفْرُ وَالنِّفَاقُ: مَنْ سَمِعَ مُنَادِيَ اللهِ يُنَادِي بِالصَّلَاةِ وَيَدْعُو إِلَى الْفَلَاحِ فَلَا يُجِيبُهُ."

(المعجم الکبیر،ج: 20، ص:183،ط: المکتبة ابن تیمیة،قاھرہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں