بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی بناء پر اپنی بیوی سے غیر فطری عمل کروانے کی وجہ سے بیوی گناہ گار ہوگی؟


سوال

ایک عورت کاشوہرحق زوجیت اداکرنے پرقادرنہیں ہےتووہ اپنی تسکین کےلیےبیوی سےمشت زنی کرواتاہےاوربیوی کی تسکین کے لیے اس سے مشت زنی کرتا ہے پہلے پہل بیوی کو اس چیز کی سمجھ نہیں تھی لیکن جب اس کو علم ہوا کہ یہ گناہ ہے تو اب وہ مجبوراً اس عمل کو کرتی ہے؛ کیونکہ اگر وہ شوہر کو انکار کرے یا روکے تو شوہر جھگڑے گالیاں اور مار پیٹ پر اتر آتا ہے اور شوہر کے گھر والے اس پر فحاشی اور بدکاری کے الزام لگانے لگ جاتے ہیں تو ایسے میں بیوی مجبوراً خاموش ہو گئی ہے اور چپ چاپ روزانہ شوہر کی خواہش پر عمل کرتی ہے تو کیا بیوی اس غیر فطری اور ناجائز فعل پر گناہ گارہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی سے مشت زنی کروانا بعذر جائز ہے، تاہم اس کو عادت بنالینا اچھی بات نہیں، نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ بیوی سے جماع کرنا، بیوی کے حقوق میں سے ایک حق ہے، اس کے حق کو پورا کرنے کی بجائے مشت زنی کرنایا  اس سے کروانا جائز نہیں، اگر شوہر جماع پر قدرت نہیں رکھتا تو اس کو چاہیے کہ علاج کرائے اور بیوی کا حق ادا کرے، اس کی حق تلفی گناہ ہے، باقی بیوی گناہ گار نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في حكم الاستمناء بالكف... ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم".

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:2، ص:399، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوى عالمگیری میں ہے:

"ولو مكن امرأته، أو أمته ‌من ‌العبث ‌بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج".

(کتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير، ج:2، ص:170، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی  میں ہے: 

"(ولو مكن امرأته أو أمته ‌من ‌العبث ‌بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه) قوله: كره الظاهر أنها كراهة تنزيه؛ لأن ذلك بمنزلة ما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين تأمل وقدمنا عن المعراج في باب مفسدات الصوم: يجوز أن يستمني بيد زوجته أو خادمته وانظر ما كتبناه هناك، قوله: ولا شيء عليه أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه".

(کتاب الحدود، ‌‌باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ج:4، ص:27، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں