بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب پر چینل بنانا


سوال

میں مدرسہ  کا فاضل ہوں اور اس وقت مجھے مدرسہ یا مسجد میں کام نہیں مل رہا اور میرے گھر میں بھی بہت زیادہ  مشکلات کا سامنا ہے تو میں تھک ہار کر اب یوٹیوب کو ٹائم دے رہا ہوں اور ایک چینل بنا چکا ہوں جس پر وظائف بتلاتا ہوں اور ساتھ مسائل بھی بتاتا ہوں ان شاء اللہ امید ہے کہ جو وقت میں یوٹیوب کو دے رہا ہوں اسکا مجھے دنیا اور آخرت میں فائدہ  ہوگا کیا میرا یہ فیصلہ شریعت کے خلاف ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

  1. جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اَپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔
  2. یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔
  3. یا اشتہار  غیر شرعی ہو۔
  4. یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

عام طور پر اگر  یوٹیوب پر چینل بنانے والے کی اَپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ بالا خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب انتظامیہ کی طرف سے از خودلگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں،چناں چہ  ہماری معلومات کے مطابق  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی  کمپنی سے یہ معاہدہ کیا جاتاہے کہ مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویوزر مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، چینل  بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی  کا اظہار کیا جاتا ہے؛اس لیے یوٹیوب پر چینل بنانا ہی درست نہیں ہے، اور چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ زچلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ  مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ الگ اشتہار چلاتے ہیں تو مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس  میں بسااوقات حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرنا شرعاًدرست نہیں ہے۔

لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ آمدنی کے لئے حلال ذریعہ تلاش کرے ۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : 296/3، ط: داراحیاء التراث العربي)

سنن ِترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس، إن الله طيب ولا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين»، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] قال: «وذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب، يا رب ‌ومطعمه ‌حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك»."

(أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ البقرۃ، 128/2، ط:قديمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع."

(كتاب الحظر والإباحة، 348،49/6،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506100129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں