بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ کا طلبہ کی اجازت کے بغیر اُن کا مال خرچ کرنا


سوال

 ہماری کلاس کے ایک ساتھی نے کلاس والوں کے لئے برگر منگوائے تو ایک استاد نے دیکھ لیا اور کہا کہ یہ تو طالب علم کو بدمعاش بنانے کا ذریعہ ہے اور یہ فرما کر دوسری کلاس والوں میں تقسیم کر دیے، اب سوال یہ ہے کہ کیا استاد کے لئے ایسا کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں استاذ کاطلباء سے برگر وغیرہ لےکراُن کی اجازت کے بغیر دوسری کلاس  کے طلباء میں تقسیم کرنا شرعاً درست نہیں تھا، البتہ اگر انتظامیہ کی طرف سے درس گاہ میں کھانے پینے کی اشیاء لانے کی اجازت نہ ہو تو طلباء کے لیےادارے کے نظم کی  پابندی ضروری ہے، خلاف ورزی کی صورت میں انتظامیہ کو تنبیہ کا اختیار حاصل ہے، مگر تنبیہ کے لیے مال ضبط کرناٹھیک نہیں ہے، انتظامیہ تنبیہ کے لیے کوئی اور صورت اختیار کرسکتی ہے، اب یا تو وہ طالب علم جس نے برگر منگوائے تھے دل سے معاف کردے یا استاذ صاحب برگر کی رقم اُس طالب علم کو دے دے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی، 1/261، ط: رحمانيه)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،5/1974، ط: دارالفکر)

الدر مع الرد میں ہے:

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله:لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان.

(قوله: وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .اه.

والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود،باب التعزیر،مطلب فی التعزیر باخذالمال ،4/61،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں