بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد کا اپنے شاگردوں سے جسمانی/ غیرجسمانی خدمت لینے کا حکم


سوال

میں ایک مکتب میں پڑھاتا ہوں اور بچے مجھ سے بہت ہی متأثر ہیں اور بہت زیادہ قریب ہیں ، میرے منع کرنے پر بھی میری خدمت کرتے ہیں ،کپڑے وغیرہ دھو دیتے ہیں اور پیر وغیرہ بھی دبا دیتے ہیں، اب دریافت امر یہ ہے کہ میں کیا کروں؟ راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

دینی علوم پڑھنے والا ہر طالب علم اپنے استاذ سےفیض حاصل کرنے کے لئے یقیناً تعظیم وتکریم کرتا ہے، اور استاذ سے فیض حاصل کرنے کے خاطر ہمہ وقت استاد کی خدمت کے لئے ذہنی طور پر تیار رہتا ہے، جب کہ استاذ کا بھی طالب علم سے روحانی اولاد ہونے کے ناطے شفقت اور خیرخواہی والامعاملہ ہوتا ہے،لہذا اس جذبے کے تحت کوئی طالبِ علم اپنے استاد کی خدمت کرے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم اس کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

  1. طلبہ طیبِ خاطر سے یہ خدمت انجام دیں۔
  2. جسمانی خدمت کرنے والے طلبہ امرد یا بے ریش نہ ہوں۔
  3. طلبہ پر جبر یا زبر دستی نہ کی جائے، خدمت نہ کرنے پر طالب علم سے ناراضگی کا صراحۃً،اشارۃً  یا کنایۃً کسی طریقے سے اظہار نہ کیا جائے۔
  4. جسمانی خدمت سے کسی قسم کے فتنے کااندیشہ نہ ہو۔

تاہم بہتر یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جسمانی خدمت لینے سے اجتناب کرے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الخلاء، فوضعت له وضوءا قال: «من وضع هذا فأخبر فقال اللهم فقهه في الدين»".

(صحیح البخاری، کتاب الطہارۃ، باب وضع الماء عندالخلاء، رقم الحدیث:1، ص:41، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء تشریف لے گئے تو میں نے ان کے لئے وضو کا پانی رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بیت الخلاء سےنکلنے کے بعد)فرمایا: کس نے یہ پانی رکھا؟تو ان کو بتایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کو (ابن عباس کو) دین میں سمجھ عطاء فرمائیں۔‘‘

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال [ 9620) :1:  ایک معلم صاحب جو کہ پیش امام بھی ہیں، کیا وہ اپنے کسی شاگر دنا بالغ سے وضو کے لئے پانی منگا کر طہارت کر سکتے ہیں، جیسا کہ وہ روز ایسا ہی کرتے ہی اور اسی وضو سے نماز بھی پڑھاتےہیں ۔ کیا یہ جائز ہے؟

2: بہت سے لوگ جو کہ دستکار ہیں، وہ اپنے چھوٹے چھوٹے شاگردوں سے جو کہ نابالغ ہیں ان سے پانی منگا کر پی سکتے ہیں، وہ خود آرام کرتے ہیں اور شاگرد بے چارے پنکھا جھلتے رہتے ہیں۔ کیا ان کا یہ طریقہ درست ہے؟

الجواب - حامد أو مصلياً :

1: ان کی تربیت کے لئے اور سلیقہ سکھانے کے لیے پانی منگانا اور اس پانی سے وضو کرنا اور اسے وضو سے نماز پڑھنا پڑھانا سب درست ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وقتا فوقتانبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کام لیتے اور وہ اس وقت نا بالغ تھے،   حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وضو کے لئے پانی لا کر دیا جب کہ وہ نا بالغ تھے ۔

2: اس کا حکم بھی نمبرایک سے معلوم ہو گیا لیکن بچوں پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہيے ، جس سے وہ اکتا کر پریشان ہو جائیں، خاص کر یہ صورت کہ وہ پنکھا جھلتے رہیں اور استاد آرام سے سوتے رہیں، اس سے غالب گمان یہ ہے کہ وہ اکتا جاتے ہوں گے۔ اگر استاذان سے خدمت لیں تو ان کو انعام بھی دینا چاہیئے جس سے وہ خوش ہو جائیں اور ان کی علمی اور اخلاقی تربیت بھی کی جائے ، ان کو ہنر بھی سکھایا جائے کہ یہ ان کا حق ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم۔

حرره العبد محمود غفرلہ، دارالعلوم دیو بند ، ۹۰/۴/۲۸ھ۔‘‘

(باب الاشتات، نا بالغ شا گرد سے خدمت لینا، ج:20، ص:117، ط:ادارۃ الفاروق)

الدر المنثور فی تفسیرالماثور میں ہے:

" ومن عرض نفسه للتهمة فلا يلومن من أساء الظن به".

(سورۃ الفاطر، رقم الآیۃ:29، ج:7، ص:22، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں