بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ کا بچوں کی چیزیں سزا کے طور پر پھینکنے کا حکم


سوال

استاذ کابچوں کی چیزیں سزا  کے طور پر پھینکنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ استاذ کے لیے اپنے شاگرد اور طالب علم کی تربیت اور  تادیب کے لیے کچھ معمولی سزا دینا جائز ہے،  لیکن اس سلسلے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے، نہ تو ہر وقت  سزا ہی دینی چاہیے اور نہ  ہی بالکل چھوٹ دینی چاہیے، جس  سے  طالب علم کی تربیت بھی ہوجائےاور سزا بھی حد سے تجاوز نہ کرے، صورتِ مسئولہ میں اگر  شاگرد کی کوئی ایسی چیز ہے، جس کو پھینکنے  کی صورت میں اس کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو اس قسم کی سزا دینا جائز  نہیں ہے، خصوصًا جب بچہ نابالغ بھی ہو ،  بلکہ استاذ کو چاہیے کہ اس کے علاوہ کوئی اور مناسب سزا تجویز کرلے،اگر بچے کے پاس کوئی نامناسب چیز ہو تو اس کے سرپرست کو بلا کر ان کے حوالے کردیں ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"باب التوثق ممن تخشى معرته، وقيد ابن عباس عكرمة على تعليم القرآن، والسنن والفرائض."

 (3/ 123،  کتاب الخصومات، ط:دار طوق النجاة)

الطبقات الكبرى  میں ہے:

"عن عكرمة قال: كان ابن عباس يجعل في رجلي الكبل يعلمني القرآن و يعلمني السنة."

(بقیة الطبقة الثانیة من التابعین،  عکرمة، ج:5، ص:219، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں