بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ کے لیے مدرسہ کی رقم سے مکان کی تعمیر کرنا


سوال

مدرسے  کا مہتمم مدرسہ کے استاذ کے  لیے مدرسہ کی رقم سے مکان بنانے کا خرچہ کرسکتاہے یا نہیں ؟ایک مہتمم  کہاں تک ایک استاذ پر تنخواہ کے علاوہ مدرسہ کی رقم خرچ کرسکتاہے؟کیا اگر استاذ غریب ہو تو اس کے لیے شادی کا خرچہ کرسکتاہے؟

جواب

مدرسہ میں آنے والی رقم اگر زکاۃ کی ہے تو زکاۃ کی رقم سے استاذ کے لیے مکان بنانا شرعا جائز نہیں ہے ،زکاۃ کے علاوہ جو عمومی مدرسہ کی ضروریات  کے لیے چندہ وغیرہ کی رقم ہے ،اس میں سے استاذ کی ضرورت کے لیے مکان کی تعمیر کی جاسکتی ہے ،یہ مکان مدرسہ کے لیے وقف ہوگا ،استاذ کو اس میں صرف رہائش کی اجازت ہوگی۔

اوراستاذ  اگر مستحق زکاۃ ہو  تو مدرسہ کے فنڈسے یا طلبہ کے لیے آنے والی زکاۃ کی رقم میں سے استاد کی شادی کے خرچہ کے  لیے رقم دینا جائز نہیں، البتہ اگر معطین زکاۃ   سے   مدرسہ کے غریب اساتذہ کی شادی وغیرہ کے اخراجات  کے لیے زکاۃ کی رقم لی جائے تو ایسی صورت میں مستحق زکاۃ استاذ  کی شادی وغیرہ کے لیے استاذ کو زکاۃ کی رقم کا مالک بنانا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويبدأ من غلته بعمارته)ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر (وإن لم يشترط الوقف) لثبوته اقتضاء.

(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء اهـ قال في البحر والسراج بالكسر: القناديل ومراده مع زيتها والبساط بالكسر أيضا الحصير، ويلحق بهما معلوم خادمهما وهما الوقاد والفراش فيقدمان وقوله إلى آخر المصالح: أي مصالح المسجد يدخل فيه المؤذن والناظر ويدخل تحت الإمام الخطيب لأنه إمام الجامع اهـ ملخصا."

(رد المحتار،کتاب الوقف،4/ 366،ط:سعید)

وفيه أيضا:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة.

قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ.

أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

 (‌‌كتاب الزكاة,2/ 269،ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101849

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں