بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

استاد کے آنے پر طلبہ کے احتراماً کھڑا ہونے کا حکم


سوال

 اسکول کالج اور یونیورسٹی میں استاد کے آنے پر طلبہ کا احتراماً کھڑا ہونے کا کیا حکم ہے؟ 

(حوالہ حدیث5229سنن ابی داؤد)

جواب

 کسی شخص کے لیے کھڑے ہونے یا نہ کھڑے ہونے  سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں، بعض احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے، شراح حدیث نے ان دونوں قسم کی احادیث میں محتلف اعتبار سے تطبیق دی ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح  عمدۃ القاری میں نقل کیا ہے کہ:

قیام (کسی کے لیے کھڑے ہونے) کی چار قسمیں ہیں: (۱) ممنوع (۲) مکروہ (۳)جائز (۴) مستحسن۔

(1)  ممنوع :  جو شخص تکبر  کی بناپر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے یہ پسند کرتاہو   کہ جب وہ آئے تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوجائیں، یہ ناجائز ہے۔

(2)مکروہ :  جس شخص کے دل میں تکبر نہ ہو اور  نہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے چاہے کہ اس کے لیے لوگ کھڑے ہوں، لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کھڑا نہیں ہوا تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے، یہ  قیام نا پسندیدہ  ہے۔

(3) جائز : نیکی اور اعزاز واکرام  کی غرض سے کسی کے لیے کھڑا ہونا جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش  نہیں۔ یہ جائز ہے۔

(4) مستحسن:  کوئی سفر سے آیا تو مارے خوشی کے سلام ومصافحہ کے لیے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ  دینے کے لیے کھڑے ہوجانا۔ یہ مستحسن ہے۔

"وعن أبي الوليد بن رشد: أَن الْقيام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أَن يقع لمن يريد أَن يقام إليه تكبرا وتعاظما على القائمين إليه. والثَّاني: مَكْرُوه وهو أَن يَقع لمن لا يتكبر ولا يتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أَن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز وهو أَن يقع على سبيل البر والإِكرَام لمن لايرِيد ذلِك، ويؤمن معه التَّشَبُّه بالجبابرة. والرابع: مَنْدُوب وهو أَن يقوم لمن قدم من سفر فَرحاً بقدومه ليسلم عليه أو إلى من تَجَدَّدَتْ لَهُ نعْمَة فيهنيه بحصولها. أو مُصِيبَة فيعزيه بِسَبَبِهَا".

(عمدة القاري، كتاب الاستئذان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، 22 / 251، ط:  دار إحياء التراث العربي)

شراحِ  حدیث اور فقہاءِ  کرام کی اس مسئلہ سے متعلق  عبارتوں سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی قابل شخص کی تعظیم کے لیے، یا کسی عادل بادشاہ کے آنے پر  رعایا کا، یا استاذ کےآنے پر طلبہ کا، یا بزرگ شخصیت کے احترام کے لیے،  یا بیوی کا شوہر کے لیے، اولاد کا والدین کے لیے،  یا قرابت دار کے احترام میں، یا آنے والے کو سلام یا مصافحہ کے لیے اکراماً  کھڑا ہونا، جائز ہے، بلکہ بعض مواقع پر مستحب ہے، البتہ  جس کے لیے کھڑا ہواجائے اس کے دل میں بڑائی یا تکبر کی وجہ سے اپنے لیے کھڑے ہونے کی خواہش نہ ہو، اور کھڑے ہونے والا اس کے شر یا مفسدہ سے بچنے کے لیے کھڑا نہ ہو۔

جب کہ اس شخص کے لیے کھڑا ہونا جو اپنے لیے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہو، یا جس کے لیے کھڑا نہ ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو، یا وہ کوئی فاسق فاجر شخص ہو، یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مستقل کھڑا رہا جائے جیساکہ عجمی بادشاہوں کا طرز ہے، یا جب تک آنے والا شخص نہ بیٹھ جائے اس کے سامنے کھڑا رہنا ضروری ہو اور نہ کھڑے ہونے پر عتاب ہو، یہ درست نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ  استاذ کے کلاس میں آنے پر استاذ کے اکرام میں طلبہ از خود کھڑے ہوجائیں اور انہیں سلام کریں اور استاذ کے دل میں یہ خواہش نہ ہو کہ میرے لیے یہ سب کھڑے ہوں اور نہ کھڑے ہونے پر ادارہ کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے لیے کوئی سزا بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے، یہ استاذ کا اکرام ہے،  جیساکہ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔

"وفيه: أن قيام المرؤوس للرئيس الفاضل والإمام العادل والمتعلم للعالم مستحب".

(فتح الباری، كتاب الاستئذان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم قوموا إلى سيدكم، (11/51)، ط: دار المعرفة، عمدۃ القاری، كتاب الاستئذان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، (22/251)، ط:  دار إحياء التراث العربي.

اور اگر اسکول/ کالج انتظامیہ یا خود استاد کی طرف سے یہ پابندی ہو کہ کلاس میں آنے پر سب طلبہ کھڑے ہوں، اور جو کھڑا نہ ہو اس کو سزا دی جائے،  یا جب تک استاد کلاس میں اپنی مسند پر بیٹھ نہ جائے طالب علموں کے لیے کھڑا ہونا ضروری ہو تو یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔ جیساکہ فتح الباری میں ہے:

"وإنما يكره لمن كان بغير هذه الصفات، ومعنى حديث "من أحب أن يقام له" أي بأن يلزمهم بالقيام له صفوفاً على طريق الكبر والنخوة".

  (فتح الباري لابن حجر،  كتاب الاستئذان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم قوموا إلى سيدكم، (11 / 51)، ط: دار المعرفة.

اور دوسری صورت میں اگر  طلبہ کے لیے یہ مسئلہ ہو کہ اگر کلاس میں استاد کے لیے نہیں کھڑے ہوں گے تو  استاد کے دل میں کینہ، حسد اور دشمنی پیدا ہوگی، اور عمومی فضا اسی طرح کھڑے ہونے کی بن چکی ہو تو طلبہ کے لیے ایسی صورت میں کھڑے ہونے کی گنجائش ہے-

جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن وهبان: أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام؛ لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة، لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام".

(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، (6/384)، ط:  دار الفكر.

تاہم اس صورت میں خود استاد اور اسکول/کالج انتظامیہ کو  اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔

سائل کی مطلوبہ حدیث ،سنن ابی داود میں مندرجہ ذیل الفاظ سے مروی ہے:

عن أبي مجلز، قال: خرج معاوية على ابن الزبير، وابن عامر فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير فقال معاوية لابن عامر: اجلس فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

(سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في قيام الرجل للرجل، (4/358) رقم (5229)، ط:  المكتبة العصرية.

ترجمہ:  حضرت ابومجلز فرماتے  ہیں کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ ؓ ، سیدنا عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عامر ؓ کے ہاں آئے تو ابن عامر ؓ  کھڑے ہو گئے ۔ اور  ابن زبیر ؓ بیٹھے رہے ۔ تو سیدنا معاویہ ؓ نے ابن عامر سے کہا : بیٹھ جائیں، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے ہوئے سنا ہے جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603101192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں