استاد اپنی شاگرد ہ سے نکاح کر سکتا ہے؟ اور لڑکے اور لڑکی کی عمر میں کتنا فرق ہونا چاہیے؟
نکاح کے معاملہ میں شریعت نے لڑکی اور لڑکے کی عمر سے متعلق کسی خاص عمر کا پابند نہیں بنایا، لڑکی کی عمر کم ہونا بہتر ہے، زیادہ عمر والی لڑکی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے،تاہم نکاح کے وقت اس بات کا خیال رکھنا کہ لڑکی اپنے شوہر سے عمر ،حسب، عزت اور مال کے اعتبار سے کم ہوتوبہتر ہے۔
نیز اُستاد کا شاگردہ سے یا شاگردہ کا استاد سے نکاح کرنا ممنوع نہیں۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."
ترجمہ : ”أم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نکاح کیا مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں چھ برس کی تھی اور زفاف کیا مجھ سے (رخصتی کے وقت)میں نو برس کی تھی“
(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها وهو الصحيح."
(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506102113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن