بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد کا شاگرد کے ہدیہ کو قبول کرنے سے انکار کرنا


سوال

کیا استاد صاحب اپنے شاگر د سے ہدیہ وصول کرنے سے انکار کرسکتے ہیں؟اگرچہ ہدیہ آب زم زم ہی کیوں نہ ہو۔

جواب

سوال میں یہ واضح نہیں کہ شاگرد بالغ ہے یا نابالغ، اگر نا بالغ ہو تو نابالغ بچے کا کسی کو اپنے مال میں سے ہدیہ دینا شرعا درست نہیں، اس لیے کہ اپنے مال میں اس طرح کا تصرف صحیح ہونے کے لیے بالغ ہونا شرط ہے، لہٰذا کسی بھی نابالغ بچے سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔

اور اگر شاگرد بالغ ہو نیز مال کے حرام یا مشتبہ ہونے کا شبہ بھی نہ ہو تو ہدیہ قبول کر لینا چاہیے، خصوصاً جب ہدیہ میں دی جانے والی چیز تبرکات میں سے ہو، الا یہ کہ تہمت کی کوئی بات ہو جس کی وجہ سے ہدیہ قبول نہ کیا جائے۔

جو استاد صاحب ہدیہ قبول نہ کرتے ہوں اُن سے وجہ پوچھ لینی چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ نیز ایک استاد سے یہی گمان کرنا چاہیے کہ یقیناً وہ  کسی مضبوط علت کی بنا پر ہی ہدیہ قبول کرنے سے منع کرتے ہوں گے۔

مشکوۃ شریف میں ہے :

"وعن عطاء الخراساني أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تصافحوا يذهب الغلّ، وتهادوا تحابوا وتذهب الشحناء، رواه مالك مرسلاً".

 (رقم الحدیث :4693، باب السلام ، الفصل الأول، 3/15، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ : حضرت عطاء خراسانی  رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو کہ اس سے بغض و کینہ جاتا رہے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ بھیجتے رہا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ.

(قوله: والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة، قهستاني (قوله: وإن ضاراً) أي من كل وجه أي ضرراً دنيوياً، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله: كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعاً لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولايضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع، وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني".

(كتاب المأذون، جلد:6، صفحہ:173، طبع:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں