شاگرد کے کہنے پر استاد کا پیریڈ (سبق) ضائع کرنے کاگناہ کس پر ہوگا؟
اگر استاذ مقررہ نصاب مکمل کر لیتے ہیں اور مطلوبہ و متعارف معیار پر تدریس کرتے ہیں، طلبہ پر توجہ دیتے ہیں تو استاد کے کسی دن ناغہ کرنے کو مطلقًا درس کا ضیاع نہیں کہا جاسکتا، اور اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ کسی بامقصد غرض کے بغیر ہی صرف طلبہ کے کہنے پر سبق کا ناغہ کرتے ہیں اور اس سے طلبہ کی تعلیم میں حرج ہوتا ہو تو استاد کا ایسا کرنا درست نہیں، یہ امانت کی ادائیگی میں کوتاہی شمار ہوگا، اس لیے کہ استاد کو ادارہ کی طرف سے عمل کے لیے جو وقت دیا جاتا ہے، وہ اس کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ اس وقت میں اسے جو کام دیا گیا ہے وہ اسے مکمل کرے، اگر استاد اس میں جان بوجھ کر بغیر کسی وجہ کے کمی کوتاہی کرتا ہے، اور اپنا سبق کا وقت ضائع کر دیتا ہے، تو وہ گناہ گار ہوگا، چاہے خود وقت ضائع کرے یا کسی شاگر کے کہنے پر وقت ضائع کرے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
"(قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(کتاب الإجارۃ، ج:6، ص:70، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن