بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد کا اپنے شاگرد کو کسی دوسرے استاذ سے پڑھنے سےمنع کرنا


سوال

 ایک طالب علم نے استاذ سے چند کتابیں پڑھی ہوئی ہوں،  پھر آئندہ اس استاذ کے علاوہ دوسری جگہ دوسرے استاذ سے(جوکہ اس پہلےاستاذ کا استاذ ہے)سے پڑھنے کی خواہش رکھتا ہو،  اور پہلا استاذ شاگرد کو کہتا ہے کہ سبق مجھ سے پڑھو ورنہ پہلے جو اسباق میں نے آپ کو پڑھائے ہیں  میں تمہیں ان کی بخشش نہیں کروں گا،  اور شاگرد نے والدین کے مشورے سے دوسرے استاذ (جوکہ اس پہلے استاذ کا استاذ ہے) سے جاکر سبق پڑھنا شروع کیا، اور پہلے استاذ سے بعد میں معافی بھی مانگ لی لیکن معاف نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اُلٹا یہی جواب دیا کہ آپ نے مجھ سے جو سبق پڑھاہے میں تمہیں اس کی بخشش نہیں کرتا، اور نہ ہی ان اسباق کو آگے پڑھانے کی اجازت دیتا ہوں، اب سوال یہ ہے کہ یہ سبق کا بخشش کرنا یا نہ کرنا شریعت کی رو سے کیساہے؟  استاذ کا یہ کہنا کہ:’’ آپ مجھ سے سبق پڑھو ، دوسری جگہ پڑھنے کی میں اجازت نہیں دیتا‘‘  شرعاً کیساہے؟جبکہ  ظاہراً دوسری جگہ  پڑھائی بھی اچھی اور معیاری ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں طالب علم کے لیے حاصل کیے گئے علوم آگے منتقل کرنے کی شرعاً اجازت ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی علوم کو آگے منتقل کرنے کی ترغیب دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘، اس لیے علوم دینیہ کو  اگلی نسلوں تک منتقل کرنے پر پابندی لگانا شرعاً معتبر   نہیں ہے۔

نیز طالب علم جب اپنے آپ کو کسی استاد کے حوالے کرتا ہے تو  استاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، اور اس کی ہر طرح راہ نمائی کرے؛ کیوں کہ اس کی صلاحیتیں استاد کے پاس امانت ہوتی ہیں، اگر استاد کو اس بات کا علم ہے کہ طالب علم کی صلاحیتوں کے بقدر علم میں اس کو فراہم نہیں کر سکتا تو خود استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو کسی ایسے مدرسے میں یا ایسے استاد کے پاس بھیج دے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کے بقدر علم حاصل کر سکے، اسی طرح اگر طالب علم کسی بڑے ادارے میں جانے کی خواہش ظاہر کرے، جہاں اس کو زیادہ علم حاصل کے مواقع میسر ہوں تو ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے استاد سے اجازت لے لے، اگر استاد اس کو اجازت نہیں دیتا تو طالب علم کے لیے اس بارے میں استاد کی اطاعت کرنا لازم نہیں ہے، ہمارے اسلاف کو جب اس بات کا احساس ہوجاتا کہ میرا شاگرد فلاں استاد سے مزید علوم حاصل کر سکتا ہے تو خود اپنے شاگردوں کی راہ نمائی فرماکر وہاں بھیج دیتے تھے، چناں چہ ایک دفعہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کوفہ تشریف لے گئے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ:’’تمہارے پاس عمرو بن دینار رحمہ اللہ کی مرویات کے سب سے بڑے حافظ تشریف لائے ہیں‘‘، حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگر میرے ارد گرد جمع ہوگئے، اور میں نے ان کو احادیث پڑھائیں‘‘۔

ہاں البتہ اگر طالب علم کو دونوں جگہ مساوی درجہ کے علوم میسر ہوں تو استاد کی اطاعت کرنی چاہیے، اس میں خیر ہوگی۔

ترمذی شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌بلغوا ‌عني ‌ولو آية."

(ابواب العلم، باب ماجاء فى الحديث عن بني إسرائيل، ج:5، ص:40، رقم:2669، ط:شركة مكتبة مصر)

الجواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ میں ہے:

"قال سويد بن سعيد عن سفيان بن عيينة قال أول من أقعدني للحديث أبو حنيفة قدمت الكوفة فقال أبو حنيفة أن هذا ‌أعلم ‌الناس ‌بحديث ‌عمرو بن دينار فاجتمعوا علي فحدثتهم."

(مقدمة، فصل قبيل حرف الالف، ج:1، ص:30، ط:دائرة المعارف الهند)

تحفہ المعلم میں ہے:

"ومن الآداب المرعية للمعلم: تشجيع المواهب والعبقريات الملخبوءة حتى تظهر وتؤتى ثمرها، فرب طالب تزدريه الأعين يكون إذا شجع و أخذ بيده عالما من أكابر العلماء، أو أديبا من أعاظم الأدباء، وكم من عالم و أديب نتجة التثبيط والاحتقار حرم الناس علمه، وذلك نتيجة التعليم من بعض المعلمين."

(ص:24، ط:الكتيبات الإسلامية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں