ایک عزیز رشتہ دار نے مونگ پھلی بیچی ہے اور وہ پیسے ( عشر والے پیسے) اب امام صاحب کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، مثلًا امام صاحب کو کمرہ بنا کے دینا چاہتا ہے؛ تاکہ امام صاحب اس میں رہ سکیں، کیا اس عشر کے پیسوں سے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا ہےاور مزید یہ کہ عشر کا پیسہ کہاں کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ عشر کے مصارف وہی ہیں، جو زکوۃ کے مصارف ہیں، یعنی جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار ضروریاتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد مال یا سامان نہیں ہے، ایسے شخص کو عشر دیا جاسکتا ہے۔
نیز جس طرح زکوۃ ادا ہونے کے لیے کسی مسلمان مستحقِ زکوۃ کو کسی قسم کے معاوضے کے بغیر مالکانہ طور پر دینا ضروری ہے، اسی طرح عشر کی ادائیگی کا بھی یہی طریقہ ہے، ؛ لہذا عشر کی رقم سے تعمیر جائز نہیں ، البتہ اگر امام صاحب وغیرہ مستحقِ زکوۃ ہوں، تو ان کو تنخواہ کے علاوہ عشر دے سکتے ہیں، یعنی عشر کی رقم بطورِ تنخواہ نہ دی جائے، اس کے علاوہ اضافی طور پر دی جائے۔ یہ رقم ان کو دے کر مالک بناکر دے دی جائے اور وہ اس رقم کو کمرہ کی تعمیر میں استعمال کرلیں تو ان کے لیے درست ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"مصرف الزكاة و العشر هو فقیر، و مسکین."
و تحته في الشامي:
"و هو مصرف أیضًا لصدقة الفطر و الکفارة، و النذر و غیر ذلك من الصدقات الواجبة."
(باب المصرف، 2/339) ط: سعید)
فقط واللہ تعالٰی اعلم
فتوی نمبر : 144203201044
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن