بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عشر کی ادائیگی سے قبل اخراجات منہا کرنے کا حکم


سوال

گندم ،چاول وغیرہ کے فصل کاشت کرنے سے لے کر اس فصل کے کٹائی تک جو خرچہ ہوتا ہے، مثلاً ٹریکٹر ،کھاد،اسپرے وغیرہ ،جب اس فصل سے بندہ زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو جو خرچہ فصل پر ہوا ہے اس کو زکوٰۃ سے الگ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ زمین پر ہونے والے اخراجات دو طرح کے  ہیں:ایک وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں،  (یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں،)  مثلاً زمین کو ہموار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ،  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جاتے، بلکہ عشر یا نصفِ عشر اخراجات نکالنے سے پہلے پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔دوسرے وہ اخراجات جو فصل کی کٹائی کے بعد ہوتے ہیں،(یعنی جو زراعت (کھیتی باڑی) کے امور میں سے نہیں ہوتے) مثلاً پیکنگ ، لوڈنگ اور منڈی تک پہنچانے کا خرچہ وغیرہ، ایسے اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے ہیں ۔

نیز :  ملحوظ رہے کہ جب پیداوار تیار ہوکر کاٹنے کے قابل ہوجائے تو عشر کا اصل تعلق اسی پیداوار سے ہوتا ہے، اور اگر قیمت کے حساب سے عشر ادا کرنا ہو تو اس مالیت کا اعتبار ہوتا ہے جو پیداوار پک جانے کے بعد کٹائی کے وقت اس کی قیمت ہو، اور مالک کو یہ اختیار ہے چاہے تو اسی پیداوار میں سے عشر دے دے اور چاہے تو اس کی قیمت دے دے،

لہذا صورتِ مسئولہ میں  گندم ،چاول وغیرہ کے فصل کاشت کرنے سے لے کر اس فصل کے کٹائی تک جو خرچہ ہوتا ہے مثلاً ٹریکٹر ،کھاد،اسپرے وغیرہ  کا وہ منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ کل فصل سے عشر یا نصف عشر نکالا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول".

(2/ 326، باب العشر، ط؛ سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة، وفي كتب الشافعية: أو سقاه بماء اشتراه، وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولو استويا فنصفه، وقيل: ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر (قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك، درر، قال في الفتح: يعني لايقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة، بل يجب العشر في الكل؛ لأنه عليه الصلاة والسلام حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة، ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحداً وهو العشر دائماً في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلى نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائماً العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعاً فعلمنا أنه لم يعتبر شرعاً عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلاً اهـ وتمامه فيه ".

(2 / 328، باب العشر، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا".

(2 / 63، فصل فی صفۃ الواجب ، با ب زکاۃ الزرع والثمار ، ط: سعید)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع..." الخ (1 / 216، باب زکاۃ الخارج، ط: دار احیاء التراث العربی) الفتاویٰ التاتارخانیہ میں ہے: "إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه".

(3ْ/292 ، الفصل السادس فی التصرفات فیما یخرج من الارض، کتاب العشر، ط: زکریا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں