بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عشر کا مستحق کون ؟


سوال

کیا ہم اپنے ملازمین کو عشر دے سکتے ہیں ؟

جواب

عشر کا مصرف (حق دار)وہ شخص ہے جو زکاۃ کا مصرف ہو   یعنی جو  شخص غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی، عباسی، علوی جعفری ہو تو اس شخص کے لیے  عشر لینا جائز ہے، اور اس کو  بلا عوض عشر دینے سے  عشر ادا ہوجائے گا۔

لہذا اگر ملازمین  زکاۃ  کے مستحق ہو ں تو ان کو بھی بلا عوض عشر دینا جائز ہے لیکن ملازمت کے عوض یعنی بطور تنخواہ عشر/زکاۃ دینا جائز نہیں ہوگا، اس سے عشر ادا نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم ( هو فقير وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة".

(باب المصرف، ج:2، ص:339، ط:سعید)

وفیه أیضاً :

"( من مسلم فقير ) ولو معتوهاً ( غير هاشمي ولا مولاه ) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز: تمليك المال أي المعهود إخراجه شرعاً ( من قطع المنفعة عن الملك من كل وجه )".

(کتاب الزکاۃ، ج:2، ص:258، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى: { إنما الصدقات للفقراء}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: { لاتحل الصدقة لغني}؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني".

(کتاب الزکاۃ، فصل الذی یرجع الی المؤدی الیہ، ج:2، ص:47، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں