بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد کا بالغ و نابالغ بچوں کو مارنے کا حکم


سوال

کسی استاد کا نابالغ یا بالغ بچوں کومارنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاً  استاد کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے مراحل میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے، بے جا مار پیٹ   سے بچے  ضدی اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں،پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا،  اور زیادہ مارنا اور سختی کرنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے،  ایک تو یہ کہ اس سے  بچہ کے  اعضاءکم زور ہوجاتے ہیں، دوسرایہ کہ ڈرکے مارے سارا  پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں،تیسرایہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےکا طریقہ زیادہ سود مند ہے۔

اور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی نوبت آئے تو بچہ بالغ ہو یا نابالغ،اسے تنبیہ کی غرض سےسزا بھی دی جاسکتی ہے، بلکہ یہ تادیب کی خاطر سرزنش کا ثبوت شرع سے بھی ثابت ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان ذیشان ہے کہ" جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو، اور جب  وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو"،اسی طرح حدیثِ مبارک  میں آتا ہے کہ  گھر میں ایسی جگہ کوڑا لٹکا کر رکھو جہاں سے وہ گھر والوں کو نظر آئے؛ کیوں کہ یہ ان کی تادیب کا ذریعہ ہے۔لہذا اگر کبھی کسی استاد کے لیے ایسی صورتِ حال پیش آئے کہ بچہ کو سزا دینا ناگزیر ہو،تو وہ تدریجاً سزا دے مثلاً: (1) ملامت کرنا (2) ڈانٹنا، (3) معمولی کان کھینچنا،(4)  ہاتھ سے مارنا وغیرہ۔

اگر   تعلیم وتربیت کی غرض سے  کبھی سزا دینے کی ضرورت   پڑ جائے تو اس کے لیے  درج ذیل شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1:   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2:  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3: ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔ (نمبر 9، 10 اور 11 میں اس کی وضاحت آرہی ہے)

4: غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5: بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6:  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7: ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بچہ بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8: ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔

9: سر، چہرے اور ستر کے حصے پر نہ مارے۔

10:     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

11:    ایسی سزا  جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا دل پر اس کا اثر ہو ، شرعاً جائز نہیں ہے۔   

"مصنف ابن ابی شیبہؒ " میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا، ‌واضربوهم ‌عليها إذا بلغوا عشرا، وفرقوا بينهم في المضاجع» ."

(كتاب الصلوات، ‌‌متى يؤمر الصبي بالصلاة، رقم الحديث:3482، ج:1، ص:304، ط:مكتبة العلوم والحكم)

"معجم کبیر للطبرانیؒ " میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌علقوا ‌السوط ‌حيث ‌يراه أهل البيت»."

(باب ‌‌علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه، رقم الحديث:10669، ج:10، ص:284، ط:مكتبة ابن تيمية)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه؛ لأن المأمور يضربه نيابةً عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات، ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل، وأقره الشارح، قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات."

( کتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فروع، ج:6، ص:430، ط: سعید)

"الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ" میں ہے:

" للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتاداً للتعليم كمًّا وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث،  روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصاً. ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لايعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيراً لايعقل فلايضربه."

(تعليم و تعلم، الضرب للتعليم، ج:13، ص:13، ط:دارالسلاسل)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب

اس حوالہ سےمزید تفصیل کے لیے جامعہ کی ویب سائٹ پر موجودمذکور ہ  فتوی ملاحظہ کیجیے:

تعلیمی اداروں میں تادیب کی غرض سے بچوں کو سزا دینا اور اس کی شرائط


فتوی نمبر : 144409100915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں