بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اس مال پر زکات کا حکم جو ابھی جہاز پر ہے مطلوبہ مقام پہچنا نہیں ہے


سوال

ہمارا ایمیزون پر بزنس ہے۔ ہم چین سے مال خریدتے ہیں اور ایمیزون یو کے (انگلینڈ)میں بیچتے  ہیں۔ سوال یہ تھا کہ یکم رمضان جو کے ہم نے زکات کے لیے دن طے کیا ہوا ہے کو کچھ مال تو ہمارے آن لائن سٹور پر موجود ہے لیکن کچھ مال ابھی راستے میں ہے (چین سے نکل چکاہے پر ابھی ایمیزون یو کے کے  ویر ہاؤس نہیں پہنچا) ۔ ایسی صورت میں کیا اس مال پر بھی زکات ہو گی یا نہیں۔ نیز ہم جب ایمیزون پر بیچتے ہیں توایمیزون بھی اپنے چارجز لیتا ہے۔ اب جب ہم زکا ت کیلکولیٹ کریں گے تو کیا مال کی مارکیٹ ویلیو پر کریں گے یا اس میں سے ایمیزون کے چارجزنکال کر جو ویلیو بچے گی اس پر کریں گے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو مال پہلی رمضان کو  راستہ میں ہے اس کی زکات کے حکم میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

۱) اگر سائل نے چین میں موجود کمپنی یا فرد سے خریداری (بیع) کا معاملہ کیا ہے یعنی اس کمپنی یا فرد کے پاس جو مال موجود تھا  اس  مال کا اس سے سودا کرلیا ہے اور اب وہ مال راستہ میں ہے تو اس صورت میں سودا کرنے کے بعد  سائل کی اس پر ملکیت ثابت ہوگئی ہے۔ اب  اگر جہاز مال بیچنے والے نے کرایا ہے  (یعنی موجودہ اصطلاح میں CFR سودا ہے) تو سائل کا قبضہ اب تک اس مال پر ثابت نہیں ہوا ہے اور وہ مال  جس پر قبضہ ثابت نہیں ہوا ہو  اور اس حال میں زکات کا سال مکمل ہوگیا ہو تو وہ مال  زکات کے نصاب میں تو شامل ہوتا ہے لیکن   قبضہ سے پہلے زکات واجب نہیں ہوتی اور قبضہ کے بعد گزشتہ سال کی بھی زکات واجب ہوتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں  اس سال پہلی رمضان کو جو خریدا ہوا مال  راستہ میں تھا وہ سائل کے نصاب کا حصہ بنے گا،  لیکن زکات کی ادائیگی فی الفور   سائل پر پہلی رمضان کو  واجب نہیں ہوگی، بلکہ جب قبضہ آجائے اس وقت گزشتہ سال ( یعنی جو سال پہلی رمضان کو مکمل ہوگیا ) کی  زکات ادا کرنا ہوگی، یعنی فی نفسہ اس مال پر زکات واجب ہے، البتہ شریعت نے زکات کی ادائیگی میں قبضہ  تک کی سہولت دی ہے ، اسی وجہ سے اگر  سائل چاہے تو پہلی رمضان کو بھی اس مال کی زکات ادا کرسکتا ہے۔

  اگر جہاز سائل (خریدار)نے کرایا ہے (یعنی موجودہ اصطلاح میں FOBسودا ہو) تو جہاز میں سامان چڑھتے ہی سائل کا قبضہ بھی اس مال پر ثات ہوگیا؛ لہذا پہلی رمضان کو ا س پر زکات ادا کرنا واجب ہوگی۔

۲) اگر  چین کی کمپنی یا فرد کے پاس مال موجود نہیں تھا، بلکہ سائل نے اس کو سامان کا آڈر لکھوایا یعنی شرعی اصطلاح میں استصناع یا وعدہ بیع کا معاملہ کیا تواس  صورت میں آڈر لکھواتے ہی سائل کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ قبضہ آنے کے بعد سائل کی ملکیت خریدی ہوئی چیز (مبیع) پر ثابت ہوگی؛ لہذا اگر جہاز بیچنے والے نے کرایا ہے (یعنی موجودہ اصطلاح میں CFRسودا ہے )تو پھر سائل پر اس مال کی زکات واجب نہیں ہوگی؛ کیوں کہ   پہلی رمضان تک  سائل کی ملکیت اس مال پر ثابت ہی  نہیں ہوئی ہے اور   اگر جہاز سائل (خریدار )  نے کرایا ہے (یعنی موجوہ اصطلاح میں FOB سودا ہے) تو جہاز میں چڑھتے ہی سائل کی ملکیت اور قبضہ ثابت ہوجائے گا  اور اس وجہ سے  سائل پر زکات واجب ہوگی ۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ  مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق جن صورتوں (یعنی 1- میں خریداری کا معاملہ کیا اور جہاز خود کرایا،2- خریداری کا معاملہ کیا اور جہاز بیچنے والے نے کرایا اور پھر قبضہ کرلیا 3- استصناع کا معاملہ کیا اور جہاز خود کرایا) میں مال پر زکات ادا کرنا   واجب  ہے ان  صورتوں میں مال کی مارکیٹ ویلیو کا اعتبار کیا جائے گا اور ایمیزون جو چارجز مستقبل میں وصول کرے گا مال کی زکات کا حساب کتاب کرتے وقت ان چارجز کو منہا نہیں کیا جائے گا۔   

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج وأما المبيع قبل القبض فقيل لا يكون نصابا والصحيح أنه يكون نصابا كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الزکوۃ، باب اول ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۷۲،دار الفکر) 

البحر الرائق میں ہے:

"وقدمنا أن المبيع قبل القبض لا تجب زكاته على المشتري وذكر في المحيط في بيان أقسام الدين أن المبيع قبل القبض، قيل: لا يكون نصابا؛ لأن الملك فيه ناقص بافتقاد اليد، والصحيح أنه يكون نصابا؛ لأنه عوض عن مال كانت يده ثابتة عليه، وقد أمكنه احتواء اليد على العوض فتعتبر يده باقية على النصاب باعتبار التمكن شرعا اهـ فعلى هذا قولهم: لا تجب الزكاة معناه قبل قبضه وأما بعد قبضه فتجب زكاته فيما مضى كالدين القوي."

(کتاب الزکوۃ ،شروط وجوب الزکوۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۲۵،دار الکتاب الاسلامی)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم."

(کتاب الاستصناع ج نمبر ۵ ص نمبر ۳ ،دار الکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

" فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل في الجانبين جميعا، بلا خلاف،.....(وأما) بعد الفراغ من العمل قبل أن يراه المستصنع، فكذلك، حتى كان للصانع أن يبيعه ممن شاءكذا ذكر في الأصل؛ لأن العقد ما وقع على عين المعمول، بل على مثله في الذمة؛.....فأما إذا أحضر الصانع العين على الصفة المشروطة؛ فقد سقط خيار الصانع، وللمستصنع الخيار."

(کتاب الاستصناع ج نمبر ۵ ص نمبر ۳ ،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي ولا خيار للصانع بل يجبر على العمل وعن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إن له الخيار كذا في الكافي وهو المختار هكذا في جواهر الأخلاطي والمستصنع بالخيار إن شاء أخذه، وإن شاء تركه ولا خيار للصانع وهو الأصح."

(کتاب البیوع ،باب رابع ،فصل ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۹،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى دهنا ودفع القارورة إلى الدهان وقال للدهان ابعث القارورة إلى منزلي فبعث فانكسرت في الطريق قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - إن قال للدهان ابعث على يد غلامي ففعل فانكسرت القارورة في الطريق فإنها تهلك على المشتري ولو قال ابعث على يد غلامك فبعثه فهلك في الطريق فالهلاك يكون على البائع لأن حضرة غلام المشتري تكون كحضرة المشتري وأما غلام البائع فهو بمنزلة البائع كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب البیوع ،باب رابع ،فصل ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۹،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں