بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اس کھانے کا حکم جو سور کے پکانے کی جگہ بنتا ہے


سوال

 میں اس وقت انگلینڈ میں ہوں، میرے کام میں بعض اوقات ایسے کھانے آتے ہیں جن کے بارے میں سنا ہے کہ جہاں سور کو پکاتے ہیں وہی وہ چیزیں بھی تیار ہوتی ہیں اس میں کیا کر نا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر غالب گمان  ہوجائے یا  کوئی  عادل مسلمان اس بات کی خبر دے کہ مذکورہ کھانےاسی نجس برتن میں پکائے جاتے ہیں جس میں  خنزیر کو بھی پکایا جاتا ہے تو یہ کھانے  کھانا جائز نہیں ہے، اور اگر  کسی دوسرے پاک برتن میں بنائے جاتے ہوں  تو پھر یہ  کھانے پاک ہوں گے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"قال محمد رحمه الله تعالي: يكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها جاز إذا لم يعلم بنجاسة الأواني وإذا علم حرم ذلك عليه قبل الغسل."

(كتاب الكراهية، ص:232:8، دار الكتاب الاسلامي)

معالم السنن میں ہے:

"قال الشيخ: والأصل في هذا أنه إذا كان معلوما من حال المشركين أنهم يطبخون في قدورهم لحم الخنزير ويشربون في آنيتهم الخمور فإنه لا يجوز استعمالها إلا بعد الغسل والتنظيف."

(كتاب الأطعمة، ص:257، ج:4، ط:المطبعة العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"خبر الواحد يقبل في الديانات كالحل والحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما عدلا ذكرا أو أنثى حرا أو عبدا محدودا أو لا."

(کتاب الکراهیة، ص:308، ج:5، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط العدالة في الديانات) هي التي بين العبد والرب (كالخبر عن نجاسة الماء فيتيمم) ولا يتوضأ (إن أخبر بها مسلم عدل) منزجر عما يعتقد حرمته (ولو عبدا) أو أمة (ويتحرى في) خبر (الفاسق) بنجاسة الماء."

(کتاب الحظر والإباحة، ص:346، ج:6، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں