بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عرس نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

عرس نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

لفظ "عرس"عربی زبان کے "عروس"سے ماخوذ ہے جس کا معنی شادی کی دعوت،نیز  عرف و رواج کے اعتبار سے عرس کا اطلاق مزارات پر کیے جانے والے مخصوص اعمال کا نام "عرس" کہلاتاہے، البتہ چوں کہ "عرس" خود کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام ہے، اس نام کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گزرے ہیں، لہذا  صحابی کا نام ہونے کی بناء پر "عرس" نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ صحابی کا نام ہونے کی بناء پر یہ نام باعث خیرو برکت بھی ہے ۔

المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر میں ہے:

"والعرس بالضم الزفاف."

(کتاب العین، ع ر س، ج:2، ص:401، ط:المكتبة العلمية - بيروت)

لساب العرب میں ہے:

"العرس في اللغة: مهنة الإملاك والبناء، وقيل: اسم لطعام العرس خاصة، والعروس۔۔۔والعرس بالضم:‌‌ الزفاف."

(حرف العین: عرس، ج:3، ص:37، ط:دارالسلاسل الكويت)

القاموس الوحید میں ہے:

"العرس:زفاف، رخصتی، شادی، برات، ولیمہ کا کھانا، دعوت ولیمہ، ج:اعراس."

(ع ر س، ص:1065، ط:ادارہ اسلامیات)

اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں ہے:

"‌عرس بن عامر بن ربيعة بن هوذة بن ربيعة، وهو البكاء، بن عامر بن صعصعة، وفد هو وأخوه عمرو بن عامر على النبي صلى الله عليه وسلم، فأعطاهما مسكنهما من المصنعة وقرار."

(باب العین، باب العین والراء، ج:3، ص:517، ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"‌عرس بن عميرة الكندي، أخو عدي بن عميرة. تقدم نسبه عند ذكر أخيه عدي۔۔۔وروى عدي بن عدي، عن العرس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: وأمروا النساء في أنفسهن."

(باب العین، باب العین والراء، ج:3، ص:518، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں