بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عروش یا عرشی نام رکھنے کا حکم


سوال

عروش یا عرشی نام میں  سے کون سا بہتر ہے؟

جواب

’’عُرُوْش‘‘یہ عرش کی جمع ہے ، ( اسم ) اس کے مختلف معانی آتے ہیں:

1۔ بادشاہت

 2 ۔ تختِ شاہی، تختِ سلطنت ۔ قرآن پاک میں ہے:

{ ولها عرش عظيم }

 3 ۔ اصل و بنیاد ، باگ ڈور ۔ "استوی الملك علی عرشه": تختِ سلطنت پر بیٹھنا، ملک کی باگ ڈورسنبھالنا۔ "ثل عرشه": ہوا اکھڑنا ، بے عزت ہونا ، سلطنت کم زور ہونا۔

 4 ۔ چھت۔

 5 ۔ شامیانہ ، خیمہ ، سائبان  ( اکثر اس لفظ کا استعمال بانس کے سائبان یعنی چھپر کے لیے ہوتا ہے)۔

 6 ۔ ٹٹی ، لکڑی یا لوہے کی جالی جس پر انگور کی بیل چڑھائی جاتی ہے۔

 7 ۔ پیر کے اوپر کا حصہ، ج : عروش و اعراش ۔

اسی طرح ’’عروش‘‘ عرش کا مصدر ہے، اس کے معنی قیام کرنا۔

مذکورہ معانی میں سے بعض معانی کے اعتبار سے ’’عروش‘‘ نام رکھا جاسکتا ہے۔

جب کہ "عرشی"   میں یاء نسبت کی ہے، اور اس کے معنی ہیں "عرش والا"، البتہ یہ صیغہ مذکر کا ہے، مؤنث  کے لیے اس معنی میں "عَرْشِیَّة" کا لفظ استعمال ہوگا۔ اور "عرش" کے جتنے معانی اوپر بیان ہوئے وہ اس میں داخل ہیں۔لہذا ان میں سے جو اچھے معنی ہیں(جیسا کہ پہلا اور دوسرا) اس کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے۔

تاہم لڑکی کےنام کے لیے بہتر یہ ہے کہ صحابیات رضی اللہ عنہن یا امت کی گزری ہوئی نیک خواتین کے ناموں میں سے کسی کے نام پر یا اچھا بامعنی لڑکی کا نام رکھ لیا جائے۔

القاموس المحيط (1 / 597):

 العَرْشُ: عَرْشُ اللهِ تعالى، ولا يُحَدُّ، أو ياقوتٌ أحْمَرُ يَتَلأَلَأ من نورِ الجَبَّارِ تعالى، وسَرِيرُ المَلِكِ، والعِزُّ، وقِوامُ الأمرِ، ومنه: ثُلَّ عَرْشُه، ورُكْنُ الشيءِ.

وـ من البيتِ: سَقْفُه، والخَيْمَةُ، والبيتُ الذي يُسْتَظَل به، كالعَرِيشِ ج: عُروشٌ وعُرُشٌ وأعْراشٌ وعِرَشَةٌ.

وـ من القومِ: رَئيسُهُم المُدَبِّرُ لأمرِهِمْ، والقَصْرُ، وأربعةُ كَواكِبَ صِغارٌ أسْفَلَ من العَوَّاءِ، ويقالُ لها: عَرْشُ السِمَاكِ، وعَجُزُ الأسَدِ، والجَنَازَةُ، قيل: ومنه:

"اهْتَزَّ العَرْشُ لموتِ سَعْدِ بنِ مُعاذٍ" واهْتِزَازهُ: فَرَحُهُ، والمُلْكُ، والخَشَبُ تُطْوَى به البئْرُ بعدَ أن تُطْوَى بالحِجَارَةِ قَدْرَ قامَةٍ، وـ من القَدَمِ: ما نَتَأ من ظَهْرِ القَدَمِ، والمَظَلَّةُ، وأكثرُ ما يكونُ من القَصَبِ، والخَشَبُ الذي يقومُ عليه المُسْتَقِي.

وـ للطائِرِ: عُشُّهُ، وبالضم: لَحْمَتَانِ مُسْتَطِيلَتَانِ في ناحِيَتِي العُنُقِ، أو في أصْلِهَا، أو مَوْضِعا المِحْجَمَتَيْنِ، وعَظْمَانِ في اللَّهاةِ يُقيمانِ اللسانَ، وآخِرُ شَعَرِ العُرْفِ من الفَرَسِ، والأُذُنُ، والضَّخْمَةُ من النُّوقِ، كأنَّها مَعْروشةُ الزَّوْرِ، ومكةُ، أو بُيوتُها القديمةُ، ويُفْتَحُ، أو بالفتحِ: مكةُ، كالعَرِيشِ، وبالضم: بُيوتُها".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144210200388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں