بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عرف کی بنیاد پروالد کی جائیدادسے اپناخرچہ وصول کرنے کی ایک صورت


سوال

میرے والد نے دوشادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے ہم چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ،اور  دوسری بیوی سے دوبیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، میں نے اپنے سگے بھائیوں کے ساتھ مل کر دو ہوٹل کھولے، اس میں نہ والد اورنہ ہی دوسرے بھائیوں کے کچھ پیسے اورنہ ہی ان کی مزدوری ومحنت لگی ہے ،اب مسئلہ یہ ہےکہ والدکی گاؤں میں جائیدادتھی ،اس جائیدادپرمیں نے والدکی زندگی میں کچھ اخراجات کئے تھے  یعنی بورنگ ،سولروغیرہ  کی ضرورت تھی تومیں نے والدصاحب کواس کےلئے اکیس لاکھ روپے دیئے،اس وقت میرے اوروالدکے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوالیکن ہمارے علاقہ کاعرف  یہ ہے کہ اگربڑابیٹا والدکی جائیدادپرخرچہ کرے گا،پھرجب والدکی جائیدادتقسیم ہوگی خواہ اس والدکی حیات میں یااس کے انتقال کے بعدہو، توبڑابیٹا پہلے اپنا لگایاہوا خرچہ  لیتاہے ،اب میرے سوتیلے بھائی مجھے میرے اکیس لاکھ دینے کےلئے تیارہے ،لیکن وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوٹلوں میں ہماراجوحصہ بنتاہے وہ ہمیں دے دو پھرہم آپ کے اکیس لاکھ دینگے ،یہ اس بنیادپرمطالبہ کررہے کہ ہم آپ کے بھائی ہیں ،اب سوال یہ ہے:

1۔ کیا ان  سگے بھائیوں کامیرے ہوٹلوں میں کوئی حصہ بنتاہے ؟ جب کہ ہوٹلوں میں نہ ان کاپیسہ لگاہے اورنہ ہی ان کی محنت لگی ہے تمام  ہوٹل میں تواپنی ذاتی رقم  سے کھولے تھے ؟

2۔میرے اکیس لاکھ کاکیاحکم ہوگا؟

جواب

1۔بصدق واقعہ صورت مسئولہ میں سائل نے اگر  مذکورہ تمام  ہوٹل اپنے ذاتی پیسوں سے بنائے تھے، والد مرحوم کا بطورشریک کوئی پیسہ شامل نہیں کیاتھا،تو اس صورت میں مذکورہ تمام ہوٹل سائل کی ملکیت شمار ہوں گے، جس میں سائل کے دیگربھائی بہنوں کاشرعاکوئی حق نہیں ہوگا،اورسائل کے باپ شریک بھائیوں کی جانب سے مذکورہ ہوٹلوں سے حصہ کامطالبہ کرنا شرعا درست نہیں۔

2۔ کسی پیشگی معاہدہ کے بغیر بیٹاوالد کی زندگی میں والد کی جائیدادپراگرکوئی خرچہ کرے،تواس کی حیثیت تعاون کی ہوتی ہے،بعدمیں جس کے مطالبہ کاشرعااسے حق نہیں ہوتا،البتہ خرچہ کرنے سے پہلے بیٹے نے اگربعدمیں وصول کرنے کی وضاحت کررکھی ہو،یاوہاں کاعرف ہی یہ ہو کہ اخراجا ت میں خرچ کی گئی رقم بیٹے کوواپس کی جاتی ہو،تواس صورت میں بیٹااپنی رقم واپس لینے کاشرعاحقدارہوگا۔

مرشد الحيران إلى معرفة أحوال الإنسان میں ہے:

أسباب ‌الملك هي العقود الموجبة لنقل العين من مالك إلى آخر كبيع أو هبة أو وصية والميراث ووضع اليد على الشيء الذي لا مالك له والشفعة.

(الکتاب الثانی فی أسباب الملک،الفصل الاول ،ص:13،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المعروف عرفا كالمشروط شرطا"

(المقالةالثانية،ج:1، ص:51،ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں