بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یورین بیگ کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم


سوال

آپریشن ہونے  کی صورت میں یا کسی اور عذر کے سبب اگر کسی کو یورین بیگ یا پاخانے کا بیگ لگا ہوا ہوتو وہ شخص نماز کیسے ادا کرے؟ نیز اگر مریض کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو وہ لیٹ کر  کیسے نماز پڑھے،  کیا  اس  کے  لیے  قبلے کی  طرف  پاؤں  کرکے  نماز  پڑھنا  درست  ہو گا؟

جواب

1)  مریض کے لیے یورین بیگ   (پیشاب کی تھیلی)   کے ساتھ نماز پڑھنا معذور ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز ہے،ایسے آدمی پر ضروری ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد نیا وضو کرے۔

2) اگر کوئی شخص بیٹھ کر رکوع سجدہ اشارے سے نہ کرسکے تو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور لیٹ کر  سر کے نیچے کوئی تکیہ وغیرہ رکھ لے؛ تاکہ منہ قبلہ کے سامنے ہوجائے اور  پاؤں قبلہ کی جانب کرلے یا دائیں کروٹ پر لیٹ کر رخ قبلہ کی جانب کرلے، دونوں ہی طریقے درست ہیں ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

 "شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ج: 1، ص:40 و 41، ط: رشيدية)

ہدایہ میں ہے:

"والمستحاضة ومن به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة فيصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل."

 (ج: 1، ص: 34، ط: دار إحياء التراث العربي،)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وإن ‌تعذر ‌القعود) ولو حكما (أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه لكراهة مد الرجل إلى القبلة ويرفع رأسه يسيرًا ليصير وجهه إليها (أو على جنبه الأيمن) أو الأيسر ووجهه إليها (والأول أفضل)."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:2، ص:99، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں