بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اردو مناجات کے بعد یاد آیا کہ سجدہ سہو کرنا تھا


سوال

ترک واجب کی وجہ سے سجدہ ذمہ میں واجب ہوا، مگر دعا مانگنے کے بعد یاد آیا کہ ذمہ میں سجدہ واجب ہے تو اب کیا کیا جائے ؟واضح رہے کہ دعا میں مسنون دعائیں مانگی اور اردو میں بھی کچھ اللہ تعالیٰ سے کہا.

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سلام پھیرنے کے بعد اردو میں دعا کی تو سلام پھیرنے کی وجہ سے نماز کے فرائض پورے ہو چکے تھے، البتہ واجب رہ جانے کی وجہ سے نماز وقت میں واجب الاعادہ ہے۔ اور اگر اردو میں دعا سلام پھیرنے سے پہلے کی تو نماز فاسد ہوگئی کیونکہ غیر عربی زبان میں دعا کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله وحرم بغيرها) أقول: نقله في النهر عن الإمام القرافي المالكي معللا باحتماله على ما ينافي التعظيم. ثم رأيت العلامة اللقاني المالكي نقل في شرحه الكبير على منظومته المسماة جوهرة التوحيد كلام القرافي، وقيد الأعجمية بالمجهولة المدلول أخذا من تعليله بجواز اشتمالها على ما ينافي جلال الربوبية، ثم قال: واحترزنا بذلك عما إذا علم مدلولها، فيجوز استعماله مطلقا في الصلاة وغيرها لأن الله تعالى قال {وعلم آدم الأسماء كلها} [البقرة: 31] {وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومه} [إبراهيم: 4] . اهـ. لكن المنقول عندنا الكراهة؛ فقد قال في غرر الأفكار شرح درر البحار في هذا المحل: وكره الدعاء بالعجمية، لأن عمر نهى عن رطانة الأعاجم. اهـ. والرطانة كما في القاموس: الكلام بالأعجمية.

ورأيت في الولوالجية في بحث التكبير بالفارسية أن التكبير عبادة لله تعالى، والله تعالى لا يحب غير العربية، ولهذا كان الدعاء بالعربية أقرب إلى الإجابة، فلا يقع غيرها من الألسن في الرضا والمحبة لها موقع كلام العرب. اهـ. وظاهر التعليل أن الدعاء بغير العربية خلاف الأولى، وأن الكراهة فيه تنزيهية. هذا، وقد تقدم أول الفصل أن الإمام رجع إلى قولهما بعدم جواز الصلاة بالقراءة بالفارسية إلا عند العجز عن العربية. وأما صحة الشروع بالفارسية وكذا جميع أذكار الصلاة فهي على الخلاف؛ فعنده تصح الصلاة بها مطلقا خلافا لهما كما حققه الشارح هناك. والظاهر أن الصحة عنده لا تنفي الكراهة، وقد صرحوا بها في الشروع. وأما بقية أذكار الصلاة فلم أر من صرح فيها بالكراهة سوى ما تقدم، ولا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروها تحريما في الصلاة وتنزيها خارجها، فليتأمل وليراجع 

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج1، ص521، سعيد)

و فیہ :

(قوله ما لم يتذكر سجدة) أي صلبية، فتفسد الصلاة لوجود القاطع المانع من إعادتها وهو الدعاء المذكور، بخلاف التلاوية والسهوية لأنه لا تتوقف صحة الصلاة على سجودهما، فتتم الصلاة به وإن لم يسجدهما لأنهما واجبتان والصلبية ركن، بل لو سجدهما فهو لغو لأنه بعد قطع الصلاة، كما لو سلم وهو ذاكر لسجدة تلاوية أو سهوية تمت صلاته لخروجه منها بعد تمام الأركان.

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج1، ص524، سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال : میں نے عصر کی نماز میں امام کے سلام پھیرنے سے پہلے درود شریف کے بعد کی دعاء پڑھ کر کلام پاک اور حدیث شریف کی دوسری دعاوں کے بعد اردو میں بھی سہواً دعا مانگ لیا، غالباً یہ دعاء مانگی کہ ’’اے اللہ! اپنے شایانِ شان فضل فرما‘‘۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ نماز میں غیر عربی میں دعاء مانگنا حرام ہے، مفسدِ صلوۃ نہیں۔ یہ مسئلہ یاد نہیں رہا تھا اس لیے میں نے اپنی نماز دہرائی، آیا بہتر کیا یا مجھے دہرانے کی ضرورت ہی نہ تھی؟

جواب : آپ نے ٹھیک کیا کہ نماز دہرا لی۔"

(مفسداتِ نماز، نماز میں غیر عربی میں دعا مانگنا، ج۶، ص ۶۲۶)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں