بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے نان نفقہ کا حکم


سوال

میرے شوہر میری ذمہ داری لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ کیا اسلام میں یہ درست ہے؟

 
 
 
 

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر شرعاً بیوی کا نان و نفقہ واجب ہے، اور نان و نفقہ سے مراد بقدرِ  کفایت  کھانے پینے، کپڑے، اور مکان کا انتظام کرنا ہے، نان و نفقہ کے علاوہ الگ سے جیب خرچ شوہر پر لازم نہیں ہے، البتہ مستحب ہے کہ نان و نفقہ کے علاوہ بھی الگ سے بیوی کو جیب خرچ دیا جائے، جس کو وہ اپنی مرضی سے جائز کام کےلئے  خرچ کر سکے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر یا اس کی طرف سےکوئی اور سائلہ کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو تو شوہر پر شرعاً بیوی کو الگ سے جیب خرچ دینا لازم تو نہیں ہے، البتہ  رہائش ،کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے کہ  اس کو  الگ سے ماہوار   کچھ جیب خرچ بھی دیا جائے جس کو بیوی اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتی ہو،  بیوی اس کو اپنے نان و نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہے،  شوہر  اگر نہیں دیتا تو  شرعاً اسےملامت نہیں کیا جا سکتا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات،ج: 3 ص: 572 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."

(  كتاب الطلاق، الباب التاسع عشر فی النفقات، ج:1 ص:544 ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں