بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا علم ناقص ہونے کے متعلق روایت


سوال

عورت کاعلم  ناقص     ہے،اس کے متعلق کوئی  حدیث ہے؟

جواب

 عورت كا علم ناقص ہے، اس كے متعلق كوئی روايت كافی تلاش كے باجود نہیں مل سكی،  بلكہ عورت كو علم كے حوالے سے مرد كے برابر مقام ديا گيا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس طرح احادیث مبارکہ کے باب میں ایک عادل وضابط مرد کی روایت قبول ہوتی ہے، اسی طرح عورت کی روایت بھی قبول کی جاتی ہے، اور تاریخ اسلام میں امہات المؤمنین بالخصوص حضرت عائشہ ، اور ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما سے لے کر اب  تک ہزاروں محدِّثات ، اور حدیث مبارک روایت کرنے والی معزز خواتین گزری ہیں،اور انہی كے ذريعہ دين كا ايك معتدبہ حصہ ہم تک پہنچا ہے، اگر ان کا علم ناقص ہوتا تو ان کی روایت قبول نہ کی جاتی، یا کم از کم جب تک ان کی روایت  کا متابع یا شاہد نہ ہوتاتب تک  اسے قبول نہ کیا جا تا، جبکہ جمہور ائمہ محدثین و فقہاء میں سے کسی نے یہ شرط نہیں لگائی۔ تاہم جس روايت میں عورتوں کو "ناقصات العقل" کہا گیا ہے، اس کا تعلق شہادت کے ساتھ ہے،یعنی عدالت میں دو عورتوں کی  گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر  ہوگی، خاص طور پر جب معاملہ، معاملات اور مالیات سے تعلق رکھتا  ہو، ورنہ وه امور جن كا علم عام طور پر صرف خواتين ہی كو ہوتا ہے، ان ميں ايك عورت كی گواہی بھی کافی سمجھی جاتی ہے،جیسے رضاعت اور حضانت کے مسائل وغیرہ میں، چناچہ  قرآن کریم اور حدیث مبارک میں جہاں اس بات کو بیان کیا گیا ہے، اس کا تعلق خاص معاملات سے ہے، عام حکم نہیں۔روایت کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:

"عن أبي سعيد الخدري، قال: خرج رسول الله - صلى الله عليه وسلم- في أضحى أو فطر إلى المصلى، فمر على النساء، فقال: "يا معشر النساء تصدقن فإني أريتكن أكثر أهل النار. فقلن: وبم يا رسول الله؟ قال: "تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن"، قلن: وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله؟ قال: "أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل، قلن: بلى، قال: فذلك من نقصان عقلها، أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم، قلن: "بلى"، قال: "فذلك من نقصان دينها".

"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر میں (نماز کے لیے)عیدگاہ تشریف لائے،تو عورتوں (کی ایک جماعت )کے پاس سے آپ کاگزر ہوا،آپ نے (اُنہیں مخاطب کرکے)فرمایا: اےعورتوں کی جماعت! صدقہ کیاکرو،اس لیے کہ میں نے تم میں سے  اکثر کو دوزخ میں دیکھاہے، اُنہوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!اس کا سبب کیا ہے؟آپ  نے فرمایا:تم لعن طعن بہت کرتی ہواورشوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک ہوشیارمرد کو بے وقوف بنانے میں تم سےبڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا،(یہ سن کر)اُنہوں  نے عرض کیا: اے اللہ کےرسول !ہماری عقل اوردین کی کمی  کیاہے؟آپ  نے فرمایا:کیا  عورت کی گواہی  مرد کی آدھی گواہی کے برابر نہیں؟انہوں نے عرض کیا:جی ہاں!(ایسا ہی ہے)،آپ نے فرمایا:یہی اس کی عقل کا نقصا ن ہے،(پھر فرمایا):کیا ایسا نہیں کہ جس وقت عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے،نہ تونماز پڑھ سکتی ہےاور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے؟انہوں نے عرض کیا:جی ہاں!(ایسا ہی ہے)،آپ نے فرمایا:یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔"

(صحيح البخاري، كتاب الحيض، باب ترك الحائض الصوم، (1/ 68، برقم(304)، ط/ دار طوق النجاة)

عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہونے کی کچھ وضاحت مفتی رضاء الحق حفظه الله نے یوں بیان فرمائی ہے: 

’’عقلکی دو قسمیں ہیں:(1)عقل شرعی (2)عقل عرفی۔عورتوں میں عقل عرفی بہت اعلی درجے کی ہے، شریعت نے عورتوں کو کس طرح ناقصات العقل کہا ہے؟ تو اس کا آسان جواب آپ کو بتاتا ہوں کہ ناقصات العقل سے مراد عقل شرعی ہے، عقل عرفی عورتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے، خود حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ یہ عورتیں"أذهب للب الرجل الحازم من إحداکن"  ہوشیار مرد کو بھی بوتل میں اتارنے والیاں ہیں، گھر میں بھی اس کی حکومت چلتی ہے اور باہر بھی اس کی حکومت چلتی ہے، ہاں عقل شرعی کی کمی ہوتی ہے، اور عقل شرعی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نتائج کو نہ سوچے، جب آدمی نتیجے پر غور نہیں کرتا تو اسے نقصان ہوتا ہے، جیسے عورت یہ کہتی ہے کہ فلاں موقع آرہا ہے اور اس پر ہمیں اتنا خرچ کرنا ہے، ختنے میں اتنا خرچ کرنا ہے، شادی میں اتنا خرچ کرنا اور منگنی میں اتنا خرچ کرنا ہے، اور فلاں رسم اس طرح ہونا چاہئے، تو شوہر اور باپ کے مال کو انہی چیزوں میں اڑاتی ہیں، اس معنیٰ میں ان کو ناقصات العقل کہا گیا ہے کہ نتائج کو وہ نہیں سوچتیں۔‘‘ 

( اشاعت دین میں خواتین کا کردار، از مفتی رضاء الحق  صاحب حفظہ اللہ، ماہنامہ بینات ،شوال  المکرم 1428ھ، 2007ء) (ص: 39)، ط/ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی)

اس مضمون  کی تائید متعدد شروحاتِ حدیث سے  بھی ہوتی ہے:

علامہ مظهر الدين الزَّيْداني حنفي  رحمہ اللہ (المتوفى: 727 ھ) اپنی کتاب ’’المفاتيح في شرح المصابيح‘‘ میں فرماتے ہیں:

"فاعلم أن المراد بالعقل في هذا الحديث هو العقلُ الديني؛ لأنه عليه السلام علَّل نقصان عقلهن بجعل امرأتين في الشهادة كرجلٍ واحد، والشهادةُ شيءٌ شرعيٌّ وهي عبادةٌ؛ يعني: مَن كان عقله الدينيُّ أكثرَ تكون تقواه أكثر، وإذا كان تقواه أكثر يكون أحفظَ وأوعى للشهادة؛ لأنَّ شهادة الزور تكون سبب الهلاك والخسران في الآخرة، ويحترزُ العاقل عن مثل هذا، ولمَّا كان عقل النساء أقلَّ جعل الشرع امرأتين بمنزلة رجلٍ في الشهادة."

(المفاتيح في شرح المصابيح، كتاب الإيمان، (1/ 101)، ط/ دار النوادر، 1433 ه)

علامه ابن مَلَك كَرمانيّ حنفي رحمه الله (المتوفى: 854 ھ)  اپنی کتاب ’’شرح مصابيح السنة‘‘ میں فرماتے ہیں : 

"اعلم أن العقل في الشرع عبارة عن معنًى في الشخص يعقله؛ أي: يمنعه عن الهلاك والخسران في الآخرة بعاقل، فمَن كان ذا تجربة في أمور ولم ينته عما هو سبب هلاكه وخسرانه في الآخرة فليس بعاقل، فالمراد بالعقل هنا العقل الديني."

(شرح مصابيح السنة، كتاب الإيمان، (1/ 50)، ط/ إدارة الثقافة الإسلامية، 1433ه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں