عورتوں کوشرمگاہ سے ہر وقت جو کچھ سفید رطوبتیں نکلتی رہتی ہے،شرعًا اس کا کیا حکم ہے؟اور کیااس کی وجہ سے انہیں استنجاء کرنا ضروری ہے؟
واضح رہے کہ عورتوں کی شرمگاہ کی اندرونی جانب سے انڈے کی سفیدی کی مانند جو سفیدرطوبتیں (عام حالت میں ،خاص کر بیماری کی صورت میں)ہر وقت نکلتی رہتی ہیں وہ ناپاک ہیں ،اور شریعت کی اصطلاح میں اسے نجاستِ غلیظہ سے تعبیر کیا جاتاہے،اس کا حکم یہ کہ اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے،اور اگر وہ جسم یا کپڑوں کو لگ جائے تو اس کا دھونا ضروری ہے،ایک درہم کی مقدار (یعنی ہتھیلی کے پھیلاؤ کےبقدر، صورت اس کی یہ ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلی کو کھول کر اس پر پانی ڈالنےکی صورت میں وہ پانی جس قدر حصّے کوگھیرلےاس مقدار)سے زائد اگر جسم یا کپڑوں کولگ جائےتو اسے دھوئے بغیر نماز پڑھنے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی،اور اگر وہ رطوبت ایک درہم یا اس سے کم ہوتو اس صورت میں نماز تو ہوجائےگی،البتہ اسے جان بوجھ کر دھوئے بغیر نماز پڑھنے کی صورت میں نماز مکروہ ہو جاتی ہے،اور اگر کسی کویہ بیماری( لیکوریا کی صورت اختیار کرکے )اس قدر زیادہ ہوجائے کہ کسی بھی نماز کے مکمل وقت میں اسے اتنا وقفہ بھی نہ ملے جس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہوگی،اورایسے معذورحضرات کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اورپھر اس وقت میں جتنی چاہے نماز پڑھے خواہ گذشتہ فرائض کی قضاء ہو یا نفلی نماز ، اگر وضو کے بعد اس رطوبت کے علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے ،ورنہ دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی،اور جیسے ہی اس نماز کا وقت نکل جائے تو وہ وضو بھی ختم ہوجائے گا،اگلے نماز کے وقت کےلیے دوبارہ نیا وضو کرنا پڑےگا۔
ایسے معذور حضرات کےلیے جسم یا کپڑوں میں اس رطوبت کے لگنےکی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ جسم و کپڑا دھوکر نماز پڑھنےکی صورت میں اگر اسے اتنا وقفہ ملتا ہو کہ اس دوران وہ دوبارہ ناپاک نہ ہو تو ایسی صورت میں اس نجاست کا دھونا ضروری ہے،اور اگر اس دوران بھی رطوبتوں کے آنےکا سلسلہ جاری رہے اور وہ جسم یا کپڑوں کو لگتی رہے تو ایسی صورت میں اس کا اسی وقت دھونا ضروری نہیں ہے،بلکہ نماز سے فراغت کے بعد دھویا جائے، اس کی وجہ سے نماز میں کوئی فساد نہیں آئےگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي المجتبى أولج فنزع فأنزل لم يطهر إلا بغسله لتلوثه بالنجس انتهى. أي: برطوبة الفرج، فيكون مفرعا على قولهما بنجاستها، أما عنده فهي طاهرة كسائر رطوبات البدن جوهرة.
(قوله: برطوبة الفرج) أي: الداخل بدليل قوله أولج. وأما رطوبة الفرج الخارج فطاهرة اتفاقا اهـ ح. وفي منهاج الإمام النووي رطوبة الفرج ليست بنجسة في الأصح. قال ابن حجر في شرحه: وهي ماء أبيض متردد بين المذي والعرق يخرج من باطن الفرج الذي لا يجب غسله، بخلاف ما يخرج مما يجب غسله فإنه طاهر قطعا، ومن وراء باطن الفرج فإنه نجس قطعا ككل خارج من الباطن كالماء الخارج مع الولد أو قبيله. اهـ".
(کتاب الطھارۃ،باب الانجاس،ج:1،ص:312،313،ط: ایچ ایم سعید کراتشی)
اسی میں ہے:
"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض، والعبرة لوقت الصلاة لا الإصابة على الأكثر نهر.
(وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم(وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ".
(کتاب الطھارۃ،باب الانجاس ،ج:1،ص:318،ط:ایچ ایم سعید کراتشی)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"المغلظة: وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف. هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى.....كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي والودي والقيح والصديد والقيء إذا ملأ الفم. كذا في البحر الرائق. وكذا دم الحيض والنفاس والاستحاضة هكذا في السراج الوهاج..... فإذا أصاب الثوب أكثر من قدر الدرهم يمنع جواز الصلاة. كذا في المحيط".
(کتاب الطھارۃ،الفصل الثاني في الأعيان النجسة،ج:1،ص:46،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)
الدر المختار میں ہے:
"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لان الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفي وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة(وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لانه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحو (لكل فرض) اللام للوقت كما في - لدلوك الشمس.(الاسراء: 81) (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالاولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبا إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته".
(کتاب الطھارۃ،باب الانجاس،ص:46،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144509101688
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن