بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا نماز کے لیے مسجد جانا


سوال

ہماری  راہ نمائی کریں  کہ آج سے پہلے کے دور میں حضور ﷺ  یا  صحابہ کرام کے دور میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ عورتیں  نماز پڑھنے مسجد جاتی ہوں؟ اور عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور میں عورتیں مسجدِ نبوی  میں نماز کے لیے جایا کرتی تھیں  ، اس کی تین وجوہات تھیں:

1۔نبی کریم ﷺ  کی زیارت  کے لیے۔

2۔ اس دور میں احکامات نازل ہورہے تھے اور احکامات مردو عورت دونوں کے لیے تھے ، عورتیں حضور ﷺ سے احکاماتِ دین سیکھتیں اور دیگر عورتوں کو سکھاتیں۔

3۔ مسجدِ نبوی ﷺ  ، اور  مسجدِ حرام میں بھی نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے ، اس  لیے ان مساجد میں عورتیں نماز کے لیے آتی تھیں ،جبکہ اس مسجدِ نبوی کے علاوہ مدینہ منورہ میں  9 مساجد اور بھی تھیں ان مساجد میں عورتیں نماز کے لیے نہیں جاتی تھیں ، اور آج  بھی روضۂ رسول ﷺ  زیارت اور مسجدِ نبوی کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے خواتین آتی ہیں اور نماز پڑھتی ہیں ،  اس لیے  مسجدِ نبوی ﷺ اور مسجدِ حرام میں آج بھی عورتیں نماز پڑھتی ہیں ۔

نیز  بعض احادیث میں آپ ﷺ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے  روکنے سے منع بھی فرمایا، لیکن خود رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے لیے جہاں تک ممکن ہو مخفی مقام پر اور چھپ کر نماز پڑھنے کو پسند فرمایا اور اسے ان کے لیے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی زیادہ فضیلت اور ثواب کا باعث بتایا، چناں چہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کمرہ میں نماز پڑھے یہ صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کے اندرچھوٹی کوٹھری میں نماز پڑھے، یہ کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔

لیکن رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے خروج کی ضرورت بھی نہ رہی اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا۔بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔

ان وجوہات کی بنا پر حضرات فقہائے کرام نے یہ فتوی دیا ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں جاکر کسی بھی قسم کی  نماز (فرض ، تراویح وغیرہ) ادا کرنا مکروہ  ہے۔ 

المستدرك للحاكم میں ہے:

" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(‌‌كتاب الطهارة،  ‌‌ومن كتاب الإمامة، وصلاة الجماعة، ج: 1، ص: 324، ط: دار الكتب العلمية)

صحيح البخاری میں ہے: 

"عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."

(كتاب صفة الصلاة، باب: انتظار الناس قيام الإمام العالم، ج: 1 ، ص:  296، ط :دار ابن كثير) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية."

و في الرد:

"(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ.

قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام، وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لاينتشرون في المغرب؛ لأنهم بالطعام مشغولون وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولايخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية (قوله: واستثنى الكمال إلخ) أي مما أفتى به المتأخرون لعدم العلة السابقة فيبقى الحكم فيه على قول الإمام، فافهم."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الإمامة، ج: 1 ، ص:  566،  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں