بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کو مردوں سے پیچھے صف بناکر جماعت سے نماز پڑھنا اور اس کا طریقہ


سوال

جماعت کے ساتھ مردوں کی صف کے پیچھے عورتوں کا صف بناکر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور اس میں کیا شرائط ہیں؟

جواب

مردوں کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ عورتوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،  لہذا مردوں کو مسجد میں اور عورتوں کو گھر میں نماز ادا کرنی چاہیے، اگرکسی وجہ سے مسجد میں جماعت ہوجائے  یا مسجد میں نماز کا موقع نہ مل سکے  تو  ایسی صورت  میں مرد کو چاہیے کہ یا تو دوسری مسجد کی جماعت میں شامل ہوجائے، ورنہ تنہا نماز ادا کرنے کے بجائے اس کے لیے گھر  والوں کے ساتھ  مل کر جماعت سے نمازپڑھنا افضل ہے، رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے، جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے اور مسجد پہنچے تو جماعت ہوچکی تھی، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے گھر تشریف لے جاکر گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھائی تھی۔

گھر میں نماز کی جماعت میں  صف بنانے کا طریقہ یہ ہے:

اگر صرف ایک مرد اور ایک عورت ہو (مثلاً میاں بیوی)   تو ان میں سے مرد امام بنے اور جو بھی عورت ہو وہ پچھلی صف میں کھڑی ہو، امام کے ساتھ دائیں یا بائیں کھڑی نہ ہو۔

اگر  ساتھ میں  ایک سے زیادہ بچے بھی ہوں یا دیگر محرم مرد ہوں تو  امام آگے کھڑا ہو،  پہلی  صف میں مرد /بچے کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔

  اور اگر امام کے علاوہ ایک مرد یا ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف تھوڑا پیچھے کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔

نیز گھر  میں جماعت کرواتے وقت جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے اذان و اقامت دینا ضروری نہیں ہے،  بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، البتہ افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو بھی شوہر یا سمجھ دار بچہ دے۔ جمعہ کے دن جس جگہ جمعہ کی نماز ادا کرنے کی شرائط مکمل ہوں وہاں جمعہ کی دونوں اذانیں کہی جائیں۔

سنن النسائي (2/ 104):
" أن قزعة مولى لعبد القيس أخبره أنه سمع عكرمة قال: قال ابن عباس: «صليت إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم وعائشة خلفنا تصلي معنا، وأنا إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم أصلي معه»".

ترجمہ:  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ تھیں وہ بھی ہمارے ہم راہ نماز میں شریک تھیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  (1/ 553):

(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

وفیه أیضًا (1/ 395):
"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى". 

وفیہ ایضا (1/ 566):

"(ويقف الواحد) ولو صبياً، أما الواحدة فتتأخر (محاذياً) أي مساوياً (ليمين إمامه) على المذهب، ولا عبرة بالرأس بل بالقدم، فلو صغيراً فالأصح ما لم يتقدم أكثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن يساره كره (اتفاقاً وكذا) يكره (خلفه على الأصح)؛ لمخالفة السنة، (والزائد) يقف (خلفه) فلو توسط اثنين كره تنزيهاً، وتحريماً لو أكثر.

وفیه أیضًا (1/ 425):
(وإن أم نساء، فإن اقتدت به) المرأة (محاذية لرجل في غير صلاة جنازة، فلا بد) لصحة صلاتها (من نية إمامتها) لئلايلزم الفساد بالمحاذاة بلا التزام (وإن لم تقتد محاذية اختلف فيه) فقيل: يشترط، وقيل: لا كجنازة إجماعًا، وكجمعة وعيد على الأصح خلاصة وأشباه، وعليه إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتها وإلا لا". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں