بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جُمادى الأولى 1446ھ 12 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے باریک لباس کی خرید وفروخت اور سلائی کی اجرت


سوال

آج کل بازار میں خواتین کا جو باریک لباس رائج ہے، جس میں جسم نظر آتا ہے، اس کی خریدوفروخت ، اور ٹیلر کے لیے اس کی سلائی پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   خواتین  کے لیے  نامحرم مردوں سے پردہ کرنا شرعًا ضروری ہے ،   خواتین کا  گھر سے باہر نکلتے ہوئے یا نامحرموں کے سامنے ایسا لباس پہننا کہ جس میں  اس کے جسم کی ساخت واضح ہوتی ہو  یا کپڑا ایسا  باریک ہو کہ اس سے  جسم نظر آتا ہو، ایسا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے،لباس  کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ وہ ( لباس) ساتر ہو، یعنی جس حصے کا چھپانا واجب ہے وہ کھلا نہ رہے، نہ ایسا باریک ہو کہ جسم نظر آنے لگے اور نہ اتنا چست ہو کہ بدن کے جن اعضا کو چھپانا ضروری ہے ان میں سے کسی کی بناوٹ اور حجم نظر آجائے، لہٰذا اگر لباس اتنا چست اور تنگ ہو کہ اس سے مستور اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کو پہننا، اسے پہن کر نماز پڑھنا، باہر نکلنا، لوگوں کو دکھانا  سب ناجائز ہے اور اس حالت میں دوسروں کا اسے دیکھنا بھی ممنوع ہے، نیز لباس اگر ایسا باریک ہو کہ اس میں سے جسم جھلکتا ہو اور  اندر شمیس بھی نہ ہو تو ایسا لباس گھر میں محارم کے سامنے بھی پہننا جائز نہیں۔

البتہ گھر میں  خلوت میں شوہر کے سامنے اس طرح کا لباس پہننا جائز ہے، اسی طرح اگر باریک کپڑے کے نیچے  ایسی شمیس پہنی ہو کہ جس سے جسم نظر نہ آئے تو    محارم  یا دیگر عورتوں کے سامنے اس کا پہننا جائز ہوگا۔

نیز  جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو، تو جائز مقاصد کی غرض سے اس کو خرید وفروخت، اور اس  کرایہ پر دینے یا بنانے کی اجرت لینا جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، البتہ جان بوجھ کر گناہ کے کام کےلیے  اس کی خرید وفروخت  جائز نہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں   خواتین کے ایسے  باریک لباس جس کا فی نفسہ کسی درجہ میں  جائز استعمال موجود ہو، اس کی خرید وفروخت  اور ٹیلر کے لیے اس کی سلائی پر اجرت لینا  ناجائز نہیں ہے، البتہ  اس کا غلط استعمال جائز نہیں، تاہم کسی ایسے شخص کو جان بوجھ کر ایسا لباس فروخت کرنا جس کے بارے میں یقینی معلوم ہو کہ وہ اس کو ناجائز مقصد کے لیے ہی استعمال کرے گا ، مکروہ ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن أم سلمة رضي الله عنها قالت استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم - من الليل وهو يقول لا إله إلا الله ماذا أنزل الليل من الفتنة ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات كم من كاسية في الدنيا عارية يوم القيامة: قال الزهري وكانت هند لها أزرار في كميها بين أصابعها.  وجه ذكر هذا الحديث في هذا الباب من حيث أنه صلى الله عليه وسلم - حذر أهله وجميع المؤمنات من لباس ‌رقيق ‌الثياب الواصفة لأجسامهن بقوله كم من كاسية في الدنيا عارية يوم القيامة وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلك أن تعرى يوم القيامة."

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتجوز من اللباس والبسط، 22/ 20، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه".

(کتاب الجهاد، 4/ 268، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً :

"(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا.

(قوله: على خلاف ما في الزيلعي والعيني) ومثله في النهاية والكفاية عن إجارات الإمام السرخسي (قوله: معزيًا للنهر) قال فيه من باب البغاة: وعلم من هذا أنه لايكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب ممن يتخذ منه المعازف، وأما في بيوع الخانية من أنه يكره بيع الأمرد من فاسق يعلم أنه يعصي به مشكل.

والذي جزم به الزيلعي في الحظر والإباحة أنه لا يكره بيع جارية ممن يأتيها في دبرها أو بيع غلام من لوطي، وهو الموافق لما مر وعندي أن ما في الخانية محمول على كراهة التنزيه، وهو الذي تطمئن إليه النفوس إذ لا يشكل أنه وإن لم يكن معينا أنه متسبب في الإعانة ولم أر من تعرض لهذا اهـ وفي حاشية الشلبي على المحيط اشترى المسلم الفاسق عبدًا أمرد وكان ممن يعتاد إتيان الأمرد يجبر على بيعه (قوله: فليحفظ توفيقًا) بأن يحمل ما في الخانية من إثبات الكراهة على التنزيه، وما في الزيلعي وغيره من نفيها على التحريم، فلا مخالفة وأقول هذا التوفيق غير ظاهر لأنه قدم أن الأمرد مما تقوم المعصية بعينه وعلى مقتضى ما ذكره هنا يتعين أن تكون الكراهة فيه للتحريم فلايصح حمل كلام الزيلعي وغيره على التنزيه، وإنما مبنى كلام الزيلعي وغيره على أن الأمرد ليس مما تقوم المعصية بعينه كما يظهر من عبارته قريبا عند قوله وجاز إجارة بيت."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6 /391، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602101982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں