مسجد میں نکاح ہورہا ہے، جب کہ مسجد میں داخل ہونے کا دروازہ ایک ہے اور مسجد میں دو ہال ہیں، مرد حضرات کے لیے علیحدہ اور مستورات کے لیے علیحدہ ، آیا نکاح کے لیے عورتوں کا مسجد میں آنا شرعًا جائز ہے؟ مدلل جواب دیں۔
اسلام میں جس طرح کچھ خاص احکام مردوں کے لیے بیان کیے گیے ہیں، اسی طرح کچھ خاص احکام اور حدود کی پابندی عورتوں کے لیے بھی بیان کی گئی ہیں ، من جملہ ان میں سے ایک گھر میں رہنے ، پردےاور جہاں مردوں سے اختلاط ہوتا ہو ایسی جگہ آنے جانے سے بچنے کا حکم ہے ، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا مکروہ تحریمی ہے۔
حضور ﷺ کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ،وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے، اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی عام مساجد سے کئی گنا زیادہ تھا ،لیکن اس وقت بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر نہ آئیں اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی آپ ﷺنے ترغیب یہی دی کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنےسے افضل ہے۔
آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد جب حالات بدل گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں ؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔
جب نماز جیسی اہم ترین عبادت کی ادائیگی کے لیے عورتوں کے مسجد میں جانے سے منع کردیا گیا اور فقہاء کرام نے نصوص کی روشنی میں اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے تو موجودہ پر فتن دور جس میں فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بیزاری کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور کر باہر نکلنے کا رواج ہے ، پھر خاص نکاح کے مواقع پر عورتیں بننے سنورنے کا اہتمام بھی زیادہ کرتی ہیں،اس میں فتنہ کا اندیشہ بھی زیادہ ہے، لہذا عورتوں کا اہتمام سے نکاح میں شرکت کے لیے مسجد جانا جائز نہیں ہےاور مسجد کی انتظامیہ کو اس سلسلے کو ختم کردینا چاہیے۔
المستدرك للحاكم میں ہے:
" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."
(كتاب الطهارة، ومن كتاب الإمامة، وصلاة الجماعة، 1/ 324، ط: دار الكتب العلمية)
صحيح البخاری میں ہے:
"عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."
(كتاب صفة الصلاة، باب: انتظار الناس قيام الإمام العالم، 1/ 296، ط :دار ابن كثير)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية."
و في الرد:
"(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ.
قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام، وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لاينتشرون في المغرب؛ لأنهم بالطعام مشغولون وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولايخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية (قوله: واستثنى الكمال إلخ) أي مما أفتى به المتأخرون لعدم العلة السابقة فيبقى الحكم فيه على قول الإمام، فافهم."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 566، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101120
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن