بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنی عزت و آبرو بچانے کے لیے کیا گیا قتل معاف ہے


سوال

اگر کوئی عورت اپنی عزت وآبرو اور جان بچانے کےلیے بری نیت سے آنے والے شخص کو قتل کردے تو وہ قاتلہ شمارہوگی؟یاوہ خون ضائع ہوگا؟

اصل میں واقعہ یہ ہےایک عورت کےدیور نے اس کے ساتھ قبیح (زنا) فعل کرنے کاارادہ کیا، اور وہ کمرے کے اندر آگیا، اس عورت نے گھبراہٹ اور خوف میں پاس پڑی ہوئی چھری سے اس پر وار کئے، جس کی اس شخص کو امید نہ تھی، پے درپے وار کرنے سے وہ شخص یعنی اس عورت کا دیور مرگیا، اب وہ خاتون پریشان ہے کہ و ہ عنداللہ گناہ گار ہوگی؟  قاتلہ شمار ہوگی یااس کے دیور کا خون ضائع ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعۃ مذکورہ عورت کے دیور نے اسے بدکاری پر مجبور کیا، اورعورت کے لیے چیخ کر،  کسی دوسری  چیز سے مار کر یاکوئی بھی طریقہ اختیار کرکے  اپنی عزت بچانا ممکن تھا، لیکن عورت نے اسے چھری  سے قتل کردیاتو ایسی صورت میں قتل معاف نہیں ہوگا،اور دیت لازم ہوگی،  اوراگر عورت نے اپنی عزت وآبرو بچانے کے لیے چیخ وپکار کی،  اور اپنے دیور کو خود سے الگ کرنے کی ہرممکن کوشش بھی کی، مگر  اس کے باجود بھی دیور دور نہیں ہوا،  اور اپنے ارادے سے باز نہیں آیا،  اور عورت کے لیے عزت بچانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی اور اس نے اپنے دیور کو   قتل کردیا تو اس قتل کا خون معاف ہے ، اور اس عورت پر قصاص اور دیت واجب نہیں۔ 

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"إذا أراد فاسق الاعتداء على شرف امرأة، فيجب عليها باتفاق الفقهاء أن تدافع عن نفسها إن أمكنها الدفع؛ لأن التمكين منها للرجل حرام، وفي ترك الدفاع تمكين منها للمعتدي، ولها قتل الرجل المكره، ولو قتلته كان دمه هدرا، إذا لم يمكن دفعه إلا بالقتل."

(القسم الرابع، الباب الثاني، الفصل الثامن، المبحث الرابع حكم الدفاع عن العرض، ج:6، ص:4845، ط: دار الفكر)

الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے:

"وجد رجلا مع امرأة لا تحل له، ولو أكرهها فلها قتله ودمه هدر وكذا الغلام وهبانية (إن كان يعلم أنه لا ينزجر بصياح وضرب بما دون السلاح وإلا) بأن علم أنه ينزجر بما ذكر (لا) يكون بالقتل

و في الرد: (قوله فلها قتله) أي إن لم يمكنها التخلص منه بصياح أو ضرب وإلا لم تكن مكرهة فالشرط الآتي معتبر هنا أيضا كما هو ظاهر، ثم رأيته في كراهية شرح الوهبانية، ونصه: ولو استكره رجل امرأة لها قتله وكذا الغلام، فإن قتله فدمه هدر إذا لم يستطع منعه إلا بالقتل اهـ فافهم."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:63، ط: سعيد)

التشریع الجنائی میں ہے:

"الشرط الثالث: أن لا يمكن دفع الاعتداء بطريق آخر: يشترط لوجود حالة الدفاع أن لا تكون هناك وسيلة أخرى ممكنة لدفع الصائل، فإذا أمكن دفع الصائل بوسيلة أخرى غير الدفع وجب استعمالها، فإن أهمل المصول عليه هذه الوسيلة ودفع الاعتداء فهو معتد، فإذا أمكن دفع الصائل مثلاً بالصراخ والاستغاثة فليس للمصول عليه أن يضربه أو يجرحه أو يقتله، فإن فعل كان فعله جريمة  ، وإذا أمكن الاحتماء برجال السلطة العمومية في الوقت المناسب أو استطاع المصول عليه أن يمنع نفسه أو يمتنع بغيره دون استعمال العنف فليس له أن يستعمله...ومن أراد امرأة على نفسها فقتلته لتدفع عن نفسها، فلا شيء عليها. ومن قضاء عمر رضي الله عنه في هذا الباب أن رجلاً أضاف ناساً من هذيل فأراد امرأة على نفسها فرمته بحجر فقتلته، فقال عمر: "والله لا يؤدى أبداً"...والأصل في أفعال الدفاع أنها مباحة ولا عقاب عليها، ولكنها إذا تعدت الصائل وأصابت غيره خطأ فالفعل الذي وقع على الغير لا يعتبر مباحاً إذا أمكن نسبة الخطأ والإهمال إلى المدافع، فمن أراد أن يضرب الصائل فأخطأه وأصاب غيره فجرحه أو قتله فهو مسئول عن جرح هذا الغير أو قتله خطأ ولو أنه تعمد الفعل، إذ الفعل في ذاته مباح على الصائل ولكنه وقع على الغير خطأ، وتشبه هذه الحالة ما إذا أراد إنسان أن يصيد صيداً فأخطأه وأصاب شخصاً فالصيد في ذاته عمل مباح ولكن الصائد يسأل عن إصابة الشخص خطأ."

(كتاب الأوَل في الجريمة، ج:1،ص:482/487، ط: دار الكتاب العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں