بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کو قبر میں داماد کا اتارنا / قبر میں رکھی پکی اینٹوں کو کچی مٹی سے لیپنا


سوال

1- خاتون کی قبر میں اس کا داماد اتر سکتا ہے دفنانے کے لیے؟

2- قبر سیمنٹ کے بلاکوں سے بنی ہو تو کیا دفن سے پہلے اس کی چار دیواری اور اوپر رکھے جانے والے سلیبوں کو کچی مٹی سے لیپنا ضروری ہے؟ کسی نے کہا کہ حدیث میں منع ہے کہ قبر میں آگ رکھی جائے، تو اس لیے دیواروں اور سلیبوں پر کچی مٹی لیپنا چاہیے۔ کیا ایسی کوئی حدیث ثابت ہے؟ اور مٹی سے لیپنے کا کیا حکم ہے؟ ضروری، بہتر، ضروری نہیں یا بدعت؟

جواب

1. داماد محرم ہے، وہ ساس کو قبر میں اتارسکتا ہے۔ 

2۔ قبر میں  میت کو  رکھنے کے بعد مٹی ڈالنے سے پہلے   اس پر  کچی اینٹیں  رکھنامستحب ہے، پکی اینٹین قبر میں نہیں لگانی چاہییں۔ صحیح مسلم میں ہے :

"أن سعد بن أبي وقاص، قال: في مرضه الذي هلك فيه: «الحدوا لي لحدًا، وانصبوا علي اللبن نصبًا، كما صنع برسول الله صلى الله عليه وسلم»". (صحيح مسلم (2/ 665)
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض الوفات میں  فرمایا: ’’ میرے  لیے لحد (بغلی قبر) بنانا اور مجھ  پر  کچی اینٹیں  چننا جس طرح رسول اللہ ﷺ  کے ساتھ کیا گیا ۔

علامہ نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں تحریر فرماتے ہیں :

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لحد (بغلی قربر) بنانا اور اس پر کچی اینٹیں چننا مستحب ہے اور صحابہ رضی ﷲ عنہم کے اتفاق سے رسول اللہ ﷺ  کی قبر مبارک کے ساتھ اسی طرح کیا گیا ۔

شرح النووي على مسلم (7/ 34):
"(الحدوا لي لحدًا وانصبوا علي اللبن نصبًا كما صنع برسول الله صلى الله عليه وسلم) فيه استحباب اللحد ونصب اللبن، وأنه فعل ذلك برسول الله صلى الله عليه وسلم باتفاق الصحابة رضي الله عنهم".

مذکورہ حدیث اور علامہ نووی رحمہ اللہ کی تشریح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سنت یہ ہے کہ لحد کو کچی اینٹوں  سے چنا جائے؛ تاکہ مٹی میت کے بدن پر نہ گرے اس میں  میت کا احترام بھی ہے اور یہ طریقہ علیٰ سبیل التوارث چلا آرہا ہے؛ لہذا اس کے خلاف نہ کیا جائے،  پکی اینٹ نہ رکھی جائے کہ وہ آگ میں  سینکی گئی ہے جس سے مردے کو دور رکھنا مستحسن ہے۔ (فتاوی رحیمیہ)

لہذا بلا ضرورت قبر میں یا اس کی اندرونی جانب اطراف میں آگ پر بنی ہوئی پکی اینٹیں رکھنا مکروہ ہے، اگر ضرورت کے وقت رکھی جائیں تو گنجائش ہے، اس میں بہتر یہ ہے کہ آس پاس کچی مٹی سے لیپ دیا جائے یا کچی اینٹیں رکھ دی جائیں۔ مٹی سے لیپنا بدعت بھی نہیں ہے، اور سنتِ عبادت بھی نہیں ہے، بلکہ ضرورت کے تحت ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 234):
"(ولا بأس باتخاذ تابوت)  ولو من حجر أو حديد (له عند الحاجة) كرخاوة الأرض (و) يسن أن (يفرش فيه التراب.

 (قوله: ولا بأس باتخاذ تابوت إلخ) أي يرخص ذلك عند الحاجة، وإلا كره كما قدمناه آنفًا. قال في الحلية: نقل غير واحد عن الإمام ابن الفضل أنه جوزه في أراضيهم لرخاوتها: وقال: لكن ينبغي أن يفرش فيه التراب، وتطين الطبقة العليا مما يلي الميت، ويجعل اللبن الخفيف على يمين الميت ويساره ليصير بمنزلة اللحد، والمراد بقوله ينبغي يسن كما أفصح به فخر الإسلام وغيره، بل في الينابيع: والسنة أن يفرش في القبر التراب، ثم لم يتعقبوا الرخصة في اتخاذه من حديد بشيء، ولا شك في كراهته كما هو ظاهر الوجه اهـ أي لأنه لايعمل إلا بالنار فيكون كالآجر المطبوخ بها كما يأتي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 236):
"(ويسوى اللبن والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب لو حوله، أما فوقه فلايكره ابن مالك.
(قوله: والقصب) قال في الحلية: وتسد الفرج التي بين اللبن بالمدر والقصب كي لاينزل التراب منها على الميت، ونصوا على استحباب القصب فيها كاللبن. اهـ. (قوله: لا الآجر) بمد الهمزة والتشديد أشهر من التخفيف، مصباح. وقوله المطبوخ صفة كاشفة. قال في البدائع: لأنه يستعمل للزينة ولا حاجة للميت إليها ولأنه مما مسته النار، فيكره أن يجعل على الميت تفاؤلاً كما يكره أن يتبع قبره بنار تفاؤلاً (قوله: لو حوله إلخ) قال في الحلية: وكرهوا الآجر وألواح الخشب. وقال الإمام التمرتاشي: هذا إذا كان حول الميت، فلو فوقه لايكره؛ لأنه يكون عصمة من السبع. وقال مشايخ بخارى: لايكره الآجر في بلدتنا للحاجة إليه لضعف الأراضي". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں