بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے کن اُمور کی بنا پر خلع لینا اور نکاح فسخ کرانا جائز ہے؟


سوال

عورت کا خلع کن کن امور کی بنا پر جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کاشدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ  مبارک میں آتا ہے کہ  جو عورت بغیر کسی مجبوری کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوشبو  حرام ہے۔

سنن أبي داود  میں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقًا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»."

(1/310، باب الخلع، ط: حقانیه)

اس لیے عورت کو  چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے، اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے ، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور  شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے، اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور دونوں میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے۔

 ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]

ترجمہ: سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا، اس (مال کے لینے دینے)  میں جس کو دے کر عورت  اپنی جان چھڑالے۔

(از بیان القرآن)

اس سے یہ  بھی معلوم ہوا کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعًا ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہخلع مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، خلع کے   مفہوم میں  ہی یہ بات داخل ہے کہ وہ  شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی سے انجام پائے،  جیساکہ علامہ ابو الفتح  برہان الدین المطرزی (المتوفی 610ھ؁)اپنی کتاب ”المغرب “میں لکھتے ہیں :

 "(و خالعت) المرأة زوجها (و اختلعت منه) إذا افتدت منه بمالها فإذا أجابها إلى ذلك فطلقها قيل: خلعها."

 (المغرب في ترتيب المعرب (ص: 151) باب الخاء المعجمہ، الخاء مع اللام، ط: دار الکتاب العربی)

یعنی ”خالعت المرأۃ “اور” اختلعت المرأۃ“ کے الفاظ  اس وقت استعمال کیے  جاتے ہیں جب عورت اپنی آزادی کے لیے کوئی فدیہ پیش کرے، پس اگر شوہر اس کی پیشکش  کو قبول کرلے اور طلاق دے دے تو کہا جاتا ہے کہ خلعھا(یعنی مرد نے عورت کو خلع  دے دی)۔

البتہ خلع کے علاوہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

(1) شوہر پاگل یا مجنون ہو،  (2) شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو، (3) شوہر نامرد ہو، (4)  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو، (5) شوہر  غائب غیر مفقود ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرتی ہے اور وہ حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اور اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،مولف: مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا  مطالعہ کریں )

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط؛  دارالمعرفہ بیروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع  الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

(3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط ؛سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"و يجب لو فات الإمساك بالمعروف ...

(قوله: لو فات الإمساك بالمعروف) ما لو كان خصيًّا أو مجبوبًا أو عنينًا أو شكازًا أو مسحرًا، و الشكاز: بفتح الشين المعجمة و تشديد الكاف و بالزاي: هو الذي تنتشر آلته للمرأة قبل أن يخالطها، ثم لاتنتشر آلته بعده لجماعها، و المسحر بفتح الحاء المشددة: و هو المسحور، و يسمى المربوط في زماننا ح عن شرح الوهبانية."

(3/229، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں