بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مہر شوہر کے ذمہ لازم ہونے کی صورت میں عورت پر زکوٰۃ واجب ہونے کا حکم


سوال

 اگر کسی عورت کے پاس ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو اور نقدی میں مہر کی رقم ہو جو شوہر کے ذمے ہے اور اس نے ابھی تک ادا نہیں کی تو کیا اس پر زکوۃ واجب ہوگی؟

جواب

اگر کوئی عورت نصاب کی مالک نہیں ،  لیکن اس کا مہر نصاب سے زیادہ ہے  یا اس کو ملانے سے نصاب پورا ہوجاتا ہے  اور وہ شوہر کے ذمہ میں ہے تو  چوں  کہ مہر دین ضعیف ہے ، اور دین ضعیف کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، لہذا اس کی وجہ سے عورت  صاحبِ نصاب شمار نہیں ہوگی اور اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 343):

"وفي الفتح: دفع إلى فقيرة لها مهر دين على زوجها يبلغ نصابًا وهو موسر بحيث لو طلبت أعطاها لايجوز وإن كان لايعطي لو طلبت جاز.
قال في البحر: المراد من المهر ما تعورف تعجيله وإلا فهو دين مؤجل لايمنع وهذا مقيد لعموم ما في الخانية و يكون عدم إعطائه بمنزلة إعساره ويفرق بينه وبين سائر الديون بأن رفع الزوج للقاضي مما لاينبغي للمرأة بخلاف غيره، لكن في البزازية: إن موسرًا والمعجل قدر النصاب لايجوز عندهما، وبه يفتى احتياطًا وعند الإمام يجوز مطلقًا. اهـ.
قال في السراج: والخلاف مبني على أن المهر في الذمة ليس بنصاب عنده وعندهما نصاب. اهـ. نهر.
قلت: ولعل وجه الأول كون دين المهر دينًا ضعيفًا؛ لأنه ليس بدل مال ولهذا لاتجب زكاته حتى يقبض ويحول عليه حول جديد فهو قبل القبض لم ينعقد نصابًا في حق الوجوب فكذا في حق جواز الأخذ لكن يلزمه من هذا عدم الفرق بين معجله ومؤجله، فتأمل
."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں