بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا کسی شیخ سے بیعت ہونا


سوال

عورتوں کا کسی متبعِ  شریعت شیخ  سے اصلاحی تعلق یا بیعت ہونا کیسا ہے؟  نیز کیا شوہر یا والد کی اجازت بھی ضروری ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ بیعت کا مقصد رشد و ہدایت اور اصلاحِ  نفس ہے،   اس لیے  شیخ میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے :

1)    کتاب و سنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ  پڑھ کر یا علماء سے سن کر۔

2)   عدالت و تقوی میں پختہ ہو، کبائر سے اجتناب کرتا ہو، صغائر پر مصر نہ ہو۔

3)    دنیا سے بے رغبت ہو (حبِّ مال و حبِّ جاہ سے خالی ہو)، آخرت میں رغبت  رکھتا ہو، طاعتِ مؤکدہ        و اذکارِ منقولہ کا پابند ہو۔

4)    نیکیوں کا حکم کرتا ہو، برائیوں سے روکتا ہو۔

5)    سلوک، تزکیۂ باطن کو معتبر مشائخ سے حاصل کیا ہو، اور ان کی صحبت میں طویل عرصہ رہا ہو۔

جس  شیخ  میں  یہ  شرائط  پائی  جائیں  اس  سے  مرد  اور   (پردہ کے اہتمام کےساتھ) عورتوں کا بیعت ہونا  درست  ہے، البتہ عورتوں کو پردے میں بیعت کرنا ضروری ہے، نیز بیعت کے وقت یا کسی موقع پر بھی عورت کے ہاتھ کو چھونے یا سر پر ہاتھ  رکھنے وغیرہ  کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ   اصلًا تو انسان پر اپنے نفس کی اصلاح کرنا واجب ہے ، اس کے لیے جس طرح اور ذرائع ہیں اسی طرح کسی سے بیعت ہوجانا بھی ایک ذریعہ ہے،  لیکن یہ بیعت یا اصلاحی تعلق واجب نہیں ،   واجب اِصلاحِ نفس ہے، جس کے  لیے اور ذرائع بھی اختیار  کیے جاسکتے ہیں، لہذا عورت کو اگر کسی شیخ سے بیعت ہونے کے لیے  اس کے والد یا  شوہر منع کریں اور اس کی اصلاح کے دوسرے طریقے موجود ہوں تو اس کے لیے ان کے حکم کی تعمیل ضروری ہوگی۔

  اور اس صورت میں  مذکورہ عورت کو  اصلاح اور تزکیہ کے لیے درج ذیل صورت پر عمل کرنا چاہیے:

  حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ  ایسے لوگوں کے لیے جن کو کوئی شیخ میسر نہ ہو ، لکھتے ہیں:

’’بعض مشائخ رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ایسا شیخ ِ کامل اور مرشدِ اکمل موجود نہ ہو جو  اس کی تربیت کرسکے تو اس کو چاہیے کہ  رسول کریم ﷺ پر درود بھیجنے کو لازم کرلے، یہ ایسا طریقہ ہے جس سے طالب واصل بحق ہوجاتا ہے،اور یہی درود وسلام حضور  ﷺ  کی طرف توجہ کرنے سے احسن طریقہ سے آدابِ نبوی اور اخلاقِ جمیلہ محمدیہ ﷺ سے اس کی تربیت کردے گا اور کمالات  کے بلند تر مقامات اور قربِ الٰہی کے منازل پر اسے فائز کرے گا اور سید الکائنات افضل  الانبیاء والمرسلین ﷺ کے قرب سے سرفراز  بنائے گا۔‘‘

(مدارج النبوۃ، ج:1 ص:408،ط:شبیر برادرز)

الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37):

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً". رواه الطبراني".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145):

"فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها  أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك.

(قوله: فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: و أما عدا ذلك من زيارة الأجانب و عيادتهم و الوليمة لايأذن لها و لاتخرج..." إلخ  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں