بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا


سوال

عورت اپنی قربانی نماز سے پہلے ذبح کرسکتی ہے چونکہ عورت نماز عید نہیں پڑھتی؟

جواب

قربانی کا عید کی نماز سے پہلے جواز اور عدم جواز کا تعلق مکان سے ہے،ذات سے نہیں،لہذاشہر اور بڑا قصبہ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے،وہاں کے سب ہی رہنے والوں(خواہ عید کی نماز اس پر واجب ہو جیسے مرد حضرات اور جس پر عید کی نماز واجب نہیں جیسے خواتین، سب) کے لیے اس شہر میں کسی بھی جگہ عید الاضحی کی نماز ہونے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے، البتہ جہاں عید کی نماز پڑھنا درست نہ ہو  (یعنی  دیہات اور گاؤں میں) وہاں لوگ صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره) وآخره قبيل غروب يوم الثالث.

(قوله: وأول وقتها بعد الصلاة إلخ) فيه تسامح إذ التضحية لا يختلف وقتها بالمصري وغيره بل شرطها، فأول وقتها في حق المصري والقروي طلوع الفجر إلا أنه شرط للمصري تقديم الصلاة عليها فعدم الجواز لفقد الشرط لا لعدم الوقت كما في المبسوط وأشير إليه في الهداية وغيرها قهستاني، وكذا ذكر ابن الكمال في منهيات شرحه أن هذا من المواضع التي أخطأ فيها تاج الشريعة ولم يتنبه له صدر الشريعة.

(قوله إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي..."

(کتاب الاضحیۃ،ج6،ص318،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں