بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنی نعت کی ویڈیو فیس بک اور یوٹیوب پر شئیر کرنا


سوال

نعت خواں عورت کے لیے اپنی نعت کی ویڈیو بنانا اور اسے فیس بک، یوٹیوب وغیرہ پر شئیر کرنے کا کیا حکم ہے؟ لوگوں کے لیے ایسی نعتیہ ویڈیوز دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ اگر وہ ویڈیوز میوزک کے بغیر ہوں تو کیا حکم ہے؟

جواب

عورت کے لیے ضرورت کے موقع پر مردوں سے بات کرنا جائز ہے، لیکن ضرورت اور مجبوری کی صورت میں بات  کرنے کے لیے یہ ضروری ہے وہ اپنی آواز کو پرکشش نہ بنائے، نرم لہجہ میں بات نہ کرے، بلکہ سخت لہجے میں بات کرے، مختصر بات کرکے بات ختم کردے، جیساکہ قرآنِ پاک  (سورہ احزاب) میں ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن کو  (امہات المؤمنین ہونے کےباجود) ہدایت کی گئی کہ اگر کسی امتی سے بات چیت کی نوبت آجائے تو نرم گفتگو نہ کرے؛ مبادا اس شخص کے دل میں کوئی طمع نہ پیدا ہوجائے جو دل کا مریض ہو، بلکہ صاف اور دوٹوک بات کہے۔

اسی طرح شریعت مطہرہ میں کسی شدید ضرورت کے بغیر  جان دار کی تصویر سازی، اسی طرح جان دار کی تصاویر پر مشتمل ویڈیو  بنانا جائز نہیں ہے، خواہ وہ دین کی تشہیر کے لیے کیوں نہ ہو۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں  نعت خواہ عورت کا اپنی  نعت کی ویڈیو بناکر کرکے ویب سائٹ پر اس کو اَپ لوڈ کرنے میں درج ذیل خرابیاں موجود ہیں:

1۔۔   اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

2۔۔  وہ ویڈیوز مرد بھی دیکھیں گے، اور نامحرم کو دیکھنا جائز نہیں ہے، اس لیے اس کا سبب بننا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔۔ وہ نعتیں مرد بھی سنیں گے، اور نامحرم عورتوں کے لیے مردوں کو نعتیں سنانا جائز نہیں ہے۔

4۔۔  یہ بلاضرورت عورت کی آواز مردوں کو سنانا ہے۔

5۔۔   نعت میں عمومًا آواز کو نرم  اور پرکشش بنایا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کو یہ حکم ہے  کہ  ضرورت کے موقع پر بھی مردوں  سے بات کریں تو لہجے میں نرمی اور کشش پیدا نہ کریں۔

6۔۔ اور اگر اس میں میوزک بھی شامل ہو تو یہ ایک مزید قباحت ہے، اور اس کی ناجائز ہونے کی ایک مستقل وجہ ہے۔

لہذا عورتوں کے لیے اپنی  نعتوں کی ویڈیو بناکر ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

احکام القرآن میں ہے:

وقَوْله تَعَالَى :{ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ( هُوَ الْخَلْخَالُ ) ، وَكَذَلِكَ قَالَ مُجَاهِدٌ : ( إنَّمَا نُهِيت أَنْ تَضْرِبَ بِرِجْلَيْهَا لِيُسْمَعَ صَوْتُ الْخَلْخَالِ ) وَذَلِكَ قَوْلُهُ : { لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } .
قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَدْ عُقِلَ مِنْ مَعْنَى اللَّفْظِ النَّهْيُ عَنْ إبْدَاءِ الزِّينَةِ وَإِظْهَارِهَا لِوُرُودِ النَّصِّ فِي النَّهْيِ عَنْ إسْمَاعِ صَوْتِهَا ؛ إذْ كَانَ إظْهَارُ الزِّينَةِ أَوْلَى بِالنَّهْيِ مِمَّا يُعْلَمُ بِهِ الزِّينَةُ ، فَإِذَا لَمْ يَجُزْ بِأَخْفَى الْوَجْهَيْنِ لَمْ يَجُزْ بِأَظْهَرِهِمَا ؛ وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ الْقَوْلِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الْمَعَانِي الَّتِي قَدْ عَلَّقَ الْأَحْكَامَ بِهَا ، وَقَدْ تَكُونُ تِلْكَ الْمَعَانِي تَارَةً جَلِيَّةً بِدَلَالَةِ فَحْوَى الْخِطَابِ عَلَيْهَا وَتَارَةً خَفِيَّةً يُحْتَاجُ إلَى الِاسْتِدْلَالِ عَلَيْهَا بِأُصُولٍ أُخَرَ سِوَاهَا .
وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ مَنْهِيَّةٌ عَنْ رَفْعِ صَوْتِهَا بِالْكَلَامِ بِحَيْثُ يَسْمَعُ ذَلِكَ الْأَجَانِبُ ؛ إذْ كَانَ صَوْتُهَا أَقْرَبَ إلَى الْفِتْنَةِ مِنْ صَوْتِ خَلْخَالِهَا ؛ وَلِذَلِكَ كَرِهَ أَصْحَابُنَا أَذَانَ النِّسَاءِ ؛ لِأَنَّهُ يُحْتَاجُ فِيهِ إلَى رَفْعِ الصَّوْتِ وَالْمَرْأَةُ مَنْهِيَّةٌ عَنْ ذَلِكَ ، وَهُوَ يَدُلُّ أَيْضًا عَلَى حَظْرِ النَّظَرِ إلَى وَجْهِهَا لِلشَّهْوَةِ ؛ إذْ كَانَ ذَلِكَ أَقْرَبَ إلَى الرِّيبَةِ وَأَوْلَى بِالْفِتْنَةِ."

(احکام القرآن للجصاص، ج:3، ص:465، ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة." (1 / 406)

فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144205200986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں