بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنا مہر خود مقرر کرنا


سوال

کیا عورت اپنا حق مہر خود مقرر کر سکتی ہے؟

جواب

مہر عورت کا حق  ہے جو  نکاح  کی  وجہ  سے شوہر کے  ذمے پر واجب ہوتا ہے،  لہذا عاقلہ بالغہ عورت  اپنا مہر خود مقرر کرسکتی ہے،  بشرط یہ کہ وہ شریعت کی طرف سے مقرر کردہ مہر کی کم از کم مقدار  یعنی دس درہم  (2تولہ ساڑھے سات ماشہ ) سے کم نہ ہو،  نیز عورت نے اگر اپنا  مہر، مہرِ مثل (لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں مثلاً لڑکی بہنیں ، پھوپھیاں وغیرہ  جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، کنواری اور شادی شدہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا، اس  ) سے بہت  کم مقرر کیا ہو تو ایسی صورت میں لڑکی کے اولیاء کو اس پر اعتراض کا حق حاصل ہوگا، اولیاء اگر عورت کے مقرر کردہ مہر پر راضی ہوجائیں تو ٹھیک، ورنہ  وہ   اس مہر  کی مقدار کو بڑھا کر مہر مثل تک مقرر کراسکتے ہیں، اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو  بچہ ہونے سے    پہلے اولیاء کسی مسلمان جج کی عدالت  کے ذریعہ نکاح کو  ختم کراسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا)."

(کتاب النکاح ،باب المہر،ج: 3 ،ص: 101،ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله بأقل إلخ) أي بحيث لا يتغابن فيه وقدمنا تفسيره في الباب السابق...الخ (قوله: الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم.

(قوله: دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(کتاب النکاح،باب الکفاءۃ،ج3،ص94، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں