بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت گھر میں نماز ادا کرے یا مسجد میں؟نیز جمعہ ،عیدین اور حرمین کی نمازوں کا حکمَ؟


سوال

عورت کے لیے زیادہ فضیلت گھر میں نماز کی ہے یا مسجد میں۔ عورت کے لیے نماز جمعہ اور عیدین کا کیا حکم ہے حج اور عمرہ کے لیے جائےتو وہاں نماز باجماعت حرمین میں ادا کرنا افضل ہوگا یا ہوٹل کے کمرے میں ؟ مکہ اور مدینہ دونوں کا بتا دیں ؟

جواب

جمعہ اور عیدین کی نماز عورت پر واجب ہی نہیں ،باقی پنج وقتہ نمازیں عورتوں کے لیے اپنے گھر (قیام گاہ) ہی میں پڑھنا بہتر ہے اس میں ثواب زیادہ ہے،چاہے وہ محلہ کی مسجد ہو یا حرمین شریفین؛ البتہ چونکہ حرمین شریفین کی زیارت ایک سعادت ہے جس کا موقعہ بار بار نصیب نہیں ہوتا،اس لیے اگر شدت اشتیاق کی وجہ سے خواتین حرمین میں جاکر نماز پڑھنا چاہیں تو ان کو منع نہ کریں بلکہ انہیں عورتوں کی مخصوص جگہ میں جاکر نماز پڑھنے کی ہدایت کریں۔(ماخوذاز:حج کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا،ج3،ص232)

البنایہ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"و يكره لهن حضور الجماعات يعني الشواب منهن؛ لما فيه من خوف الفتنة، و لا بأس للعجوز أن تخرج في الفجر و المغرب و العشاء." (الهدایة)

"قال العیني:(قال: ويكره لهن حضور الجماعات) ش: أي يكره للنساء (يعني الشواب منهن) … وهذه اللفظة بإطلاقها تتناول الجُمَع و الأعياد والكسوف والاستسقاء. و عن الشافعي: يباح لهن الخروج، (لما فيه) أي في حضورهن الجماعة (من خوف الفتنة) عليهن من الفساق، وخروجهن سبب للحرام، وما يفضي إلى الحرام فحرام. وذكر في كتاب الصلوات مكان الكراهة الإساءة والكراهة فحش. قلت: المراد من الكراهة التحريم ولا سيما في هذا الزمان؛ لفساد أهله."

(کتاب الصلاة، باب في الإمامة، حضور النساء للجماعات، ج2،ص354،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے گھر(قیام گاہ)ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے چاہے وہ محلہ کی مسجد ہو یا حرم شریف کی(مذکورہ حدیث تو خاص مسجد نبوی  سے متعلق ہےاور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے متعلق درخواست تھی)لہذاعورتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ خاص نماز کے ارادے سے مسجد نہ جائیں چاہے حرم شریف ہو،البتہ اگر عورت طوا ف کے ارادہ سےیا روضئہ پاک  پر صلاۃ وسلام پیش کرنے کے لئے حرم شریف میں حاضر ہوئی ہو  اور نماز کی تیاری ہونے لگے تووہاں عورتوں کے ساتھ نماز پڑھ لے،مردوں کے ساتھ ہرگز کھڑی نہ ہو.‘‘

(باب الامامۃ والجماعۃ، ج4، ص148، ط:دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال:عورتیں نمازوں کے لیے حرم شریف میں جاویں یا اپنی قیام گاہ پر پڑھیں،افضل کیا ہے؟سمجھ میں یہ آتا ہے کہ صبح اور عشاء کی نماز حرم میں پڑھیں،کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے پردہ بھی ہے اور حرم میں آنے جانے میں سہولت بھی ہے،اول وقت چلی جائیں اور آخر میں باہر آئیں۔

جواب:ان کو مکان پر نمازپڑھنا بہتر ہےہرنماز کا یہی حکم ہے۔‘‘

(باب فی احکام الحج، ج22، ص419، ط:ادارۃ الفاروق)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے پر جہنم ،عذاب اور نفاق سے براءت  کی بشارت صرف مردوں کی فرض نمازبا جماعت کے ساتھ مخصوص ہے،عورتوں کے لیے مسجد نبوی کی بجائے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔‘‘

’’تضعیف اجر پورے حرم مکہ کے لیے ہے،لہذا مکہ مکرمہ میں عورت کو گھر میں نماز پڑھنے پر وہی اجر ملے گا جو مردوں کے لیے مسجد حرام میں نماز پر ہے،مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں تضعیف اجر کی فضیلت مردوں کے ساتھ مختص ہے،عورت کے لیے گھر میں نماز ادا کرنے پر یہ اجر نہیں،مع ہٰذا مسجد کی بنسبت گھر میں ادا کرنے پر زیادہ ثواب ہے۔‘‘

( ج3، ص34۔35 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں