بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کرنا سیاحت کے دورہ پر جانے سے افضل ہے


سوال

   آج کل  جو ایک رواج چل پڑا ہے  کہ ٹور پر گھومنے جاتے ہیں مثلا:انڈیا سے پاکستان یا افغانستان ، تو ٹور(سیاحت) پر جانے  کے بجائے عمرہ کے لیے جانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ صاحبِ حیثیت شخص کے لیے زندگی میں ایک بار عمرہ کرنا سنت موکدہ ہے اور بار بار عمرہ کے لیے جانا مستحب اور مندوب ہے،نیز بیت اللہ کا طواف کرنا، روضۂ اقدس پر حاضری دینا ایک مسلمان کے لیے بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے۔ اور سیر و سیاحت  پر جانا بھی جائز ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت رکھتاہو اور عمرہ جانے کے لیے کوئی رکاؤٹ نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ عمرہ کو سیاحت کے دورہ  پر ترجیح دےاور اس  سعادت والے عمل کو خود بھی حاصل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف  ترغیب دے۔ باقی  سیر و سیاحت کے  لیے  جانے میں  بھی کوئی قباحت نہیں،  البتہ  اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا کرے اور شرعی حدود میں رہے۔

تفسیر القرطبی میں ہے:

"[‌وسارعوا ‌إلى مغفرة من ربكم وجنة عرضها السماوات والأرض أعدت للمتقين] ...والمسارعة المبادرة، وهي مفاعلة. وفي الآية حذف. أي سارعوا إلى ما يوجب المغفرة وهي الطاعة. قال أنس ابن مالك ومكحول في تفسير (سارعوا إلى مغفرة من ربكم): معناه إلى تكبيرة الإحرام... وقيل غير هذا، والآية عامة في الجميع، ومعناها "استبقوا الخيرات."

[ج:4، ص:203، ط:دار الكتب العصرية]

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‌:"العمرة ‌إلى ‌العمرة ‌كفارة لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة"قوله: (‌العمرة ‌إلى ‌العمرة ‌كفارة لما بينهما) ، أي: من الذنوب دون الكبائر كما في قوله: (الجمعة إلى الجمعة كفارة لما بينهما)."

[کتاب الحج، باب الجمعۃ، ج:10، ص:108، ط:دار إحياء التراث العربي]

الدر مع الرد میں ہے:

"(والعمرة) في العمر (مرة سنة مؤكدة) على المذهب وصحح في الجوهرة وجوبها، فالحاصل: أن من أراد الإتيان بالعمرة على وجه أفضل فيه فبأن يقرن معه عمرة فتح، فلا يكره الإكثار منها خلافا لمالك، بل يستحب على ما عليه الجمهورها."

[كتاب الحج، مطلب في أحكام العمرة، ج: 2، ص: 472، ط:سعید]

ارشاد باری تعالی ہے:

"قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ بَدَأَ ٱلْخَلْقَ ۚ ثُمَّ ٱللَّهُ يُنشِئُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْءَاخِرَةَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ."(العنکبوت:20)

ترجمہ:" آپ ان لوگوں سے کہئے کہ تم لوگ ملک میں چلوپھرواوریکھو کہ اللہ تعالی نے مخلوق کو کس طور پر اوًل بار پیداد کیاہے،پھر اللہ پچھلی بار بھی پیدا کرےگا،بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔"(بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں